وہ یاد بھولی ہوئی داستاں سہی لیکن
وہی مزاجِ سدا سوگوار باقی ہے
رات کو کیسے سحر کر پائیں گے تیرے بغیر
چھوڑ کر مت جا ہمیں مر جائیں گے تیرے بغیر
کون لپٹے گا گلے سے پیار سے دیکھے گا کون
یاد کی باہوں سے دل بہلائیں گے تیرے بغیر
زندگی کے شہر میں خاموشیاں چھا جائیں گی
اور سناٹوں میں ہم گھبرائیں گے تیرے بغیر
رات بھر باتیں کریں گے ہم تری تصویر سے
اور تیرا غم کسے بتلائیں گے تیرے بغیر
فاصلوں سے ضبط کا ہم کو تو اب یارا نہیں
خود کو کیسے کس طرح سمجھائیں گے تیرے بغیر
جب زندگی کے راستے دشوار ہو گئے
ہم حادثوں سے بر سر پیکار ہو گئے
اشکوں کے تار توڑ گیا وقت کا طلسم
ہم ہچکیوں سے روز کی بیزار ہو گئے
دیکھا اسے قریب سے ہم نے تو یوں ہوا
ہم خامشی سے مائلِ اغیار ہو گئے
There are currently 4 users browsing this thread. (0 members and 4 guests)
Bookmarks