میں جانتی ہوں اس کی عبادت کے مرحلے
میرے ہی ساتھ اس نے تو عیدیں منائی ہیں
وہ صبح میرے گھر میں تھا جو شام کھو گیا
بستر کی اب تلک نہیں شکنیں ہٹائی ہیں
اشکوں کے بعد اپنا لہو دے کے کاٹ لیں
سمجھی تھی میں کہ درد کی فصلیں پرائی ہیں
وہ زخم پھر سے ہرا ہے نشاں نہ تھا جس کا
ہوئی ہے رات وہ بارش ، گماں نہ تھا جس کا
ہوائیں خود اسے ساحل پہ لا کے چھوڑ گئیں
وہ ایک ناؤ کوئی بادباں نہ تھا جس کا
اسی کے دم سے تھی رونق تمام بستی میں
کہ خندہ لب تھا مگر غم عیاں نہ تھا جس کا
جلی تو یوں کہ ہوئے راکھ راکھ جسم و جاں
عجیب آگ تھی کوئی دھواں نہ تھا جس کا
گلی گلی میں خموشی پہن کے پھرتا تھا
کوئی تو تھا کہ کہیں ہم زباں نہ تھا جس کا
بات جو ہوتی ہے بے بات ہوا کرتی ہے
اب خرابوں میں ملاقات ہوا کرتی ہے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks