ستم کا عدو مستحق ہو گیا
مرا دل سراپا قلق ہو گیا
اللہ ری، مری تیز روی جوشِ جنوں میں
مڑ کر جو نظر کی تو بیاباں نہیں دیکھا
بےکار گئی سعئ محبت بھی ہماری
حاصل بجز اک دیدہ ء حیراں نہیں دیکھا
اللہ ری، مجبوری ء آدابِ محبت
گلشن میں رہے اور گلستاں نہیں دیکھا
تازہ اثر، اے جذبۂ پنہاں نہیں دیکھا
مدت ہوئی شمشیر کو عریاں نہیں دیکھا
اِس عشق میں پورا کبھی ساماں نہیں دیکھا
دامن پہ نظر کی تو گریباں نہیں دیکھا
نالے کرتے ہوئے رہ رہ کے یہ آتا ہے خیال
کہ مری طرح نہ دل تھام کے رہ جائیں آپ
آسماں پر کئی تارے ہیں مگر کچھ بھی نہیں
آسماں سے پرے اک نور دمکتا دیکھوں
کل کہ دہلیز پہ ٹھوکر سے سنبھالا تھا جسے
آج اس شخص کو دریا میں اترتا دیکھوں
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks