سن تو اے دل یہ برہمی کیا ہے؟
آج کچھ درد میں کمی کیا ہے؟
دیکھ لو! رنگِ روئے ناکامی!
یہ نہ پوچھو، کہ بے بسی کیا ہے
اپنی ناکامئ طلب کی قسم!!
عین دریا ہے، تشنگی کیا ہے
جسم محدود، روح لا محدود
پھر یہ اک ربطِ باہمی کیا ہے
زخم وہ دل پہ لگا ہے کہ دکھائے نہ بنے
اور چاہیں کہ چھُپا لیں تو چھُپائے نہ بنے
ہائے بےچارگیِ عشق کہ اس محفل میں
سر جھُکائے نہ بنے، آنکھ اٹھائے نہ بنے
یہ سمجھ لو کہ غمِ عشق کی تکمیل ہوئی
ہوش میں آ کے بھی جب ہوش میں آئے نہ بنے
کس قدر حُسن بھی مجبورِ کشا کش ہے کہ آہ
منہ چھُپائے نہ بنے، سامنے آئے نہ بنے
ہائے وہ عالمِ پُر شوق کہ جس وقت جگر
اُس کی تصویر بھی سینے سے لگائے نہ بنے
There are currently 6 users browsing this thread. (0 members and 6 guests)
Bookmarks