تمام رعنائیوں کے مظہر، تمام رنگینیوں کے منظر
سنبھل سنبھل کر، سمٹ سمٹ کر سب ایک مرکز پر آرہے ہیں
بہار رنگ و شباب ہی کیا، ستارہ و ماہتاب ہی کیا
تمام ہستی جھکی ہوئی ہے، جدھر وہ نظریں جھکا رہے ہیں
شراب آنکھوں سے ڈھل رہی ہے، نظر سے مستی اُبل رہی ہے
چھلک رہی ہے، اچھل رہی ہے، پئے ہوئے ہیں پلا رہے ہیں
خود اپنے نشے میں جھومتے ہیں، وہ اپنا منہ آپ چومتے ہیں
خرام مستی بنے ہوئے ہیں، ہلاکِ مستی بنا رہے ہیں
وہ روئے رنگیں وہ موجۂ نسیم کہ جیسے دامانِ گل پہ شبنم
یہ گرمیِ حسن کا ہے عالم، عرق عرق میں نہا رہے ہیں
یہ مست بلبل بہک رہی ہے، قریبِ عارض چہک رہی ہے
گلوں کی چھاتی دھڑک رہی ہے ، وہ دستِ رنگیں بڑھا رہے ہیں
یہ موجِ دریا، یہ ریگ صحرا، یہ غنچہ و گل یہ ماہ و انجم
ذرا جو وہ مسکرا دیئے ہیں، یہ سب کے سب مسکرا رہے ہیں
فضا یہ نغموں سے بھر گئی ہے کہ موجِ دریا ٹھہر گئی ہے
سکوت نغمہ بنا ہوا ہے، وہ جیسے کچھ گنگنا رہے ہیں
اب آگے جو کچھ بھی ہو مقدر، رہے گا لیکن یہ نقش دل پر
ہم ان کا دامن پکڑ رہے ہیں، وہ اپنا دامن چھڑا رہے ہیں
There are currently 5 users browsing this thread. (0 members and 5 guests)
Bookmarks