کچھ تغافل، کچھ توجہ، کچھ غرور
دیکھنا شان عطائے درد دل
درد دل! غیرت تیری کیا ہو گئی
ان لبوں پر اور ہائے درد دل !
رند جو مجھ کو سمجھتے ہیں، انہیں ہوش نہیں
میکدہ ساز ہوں میں، میکدہ بر ہوش نہیں
کونسا جلوہ یہاں آتے ہی بے ہوش نہیں
دل مرا دل ہے، کوئی ساغر سر جوش نہیں
حسن سے عشق جدا ہے نہ جدا عشق سے حسن
کونسی شئے ہے، جو آغوش در آغوش نہیں؟
مٹ چکے ذہن سے سب یاد گذشتہ کے نقوش
پھر بھی اک چیز ہے ایسی کہ فراموش نہیں
کبھی ان مد بھری آنکھوں سے پیا تھا اک جام
آج تک ہوش نہیں، ہوش نہیں، ہوش نہیں !
عشق گر حسن کے جلووں کا ہے مرہون کرم
حسن بھی عشق کے احساں سے سبکدوش نہیں
ان شاعران دہر پہ ہو عشق کی ہی مار
اک پیکر جمیل کو قاتل بنا دیا
There are currently 4 users browsing this thread. (0 members and 4 guests)
Bookmarks