اس پہ کرے خدا رحم گردش ِ روزگار میں
اپنی تلاش چھوڑ کر جو ہے تلاش ِ یار میں
ہم کہیں جانے والے ہیں دامن ِ عشق چھوڑ کر
زیست تیرے حضور میں، موت تیرے دیار میں
تجھی سے ابتدا ہے، تو ہی اک دن انتہا ہو گا
صدائے ساز ہو گی اور نہ ساز بے صدا ہو گا
ہمیں معلوم ہے ہم سے سنو محشر میں کیا ہو گا
سب اس کو دیکھتے ہونگے، وہ ہم کو دیکھتا ہو گا
جہنم ہو کہ جنت، جو بھی ہو گا، فیصلہ ہو گا
یہ کیا کم ہے، ہمارا اور ان کا سامنا ہو گا
ازل ہو یا ابد، دونوں اسیر ِ زلف ِ حضرت ہیں
جدھر نظریں اٹھاؤ گے، یہی اک سلسلہ ہو گا
جگر کا ہاتھ ہو گا حشر میں اور دامن ِ حضرت
شکایت ہو کہ شکوہ جو بھی ہو گا، برملا ہو گا
تو بھی او نا آشنائے درد دل
کاش ہوتا مبتلائے درد دل
درد دل میرے لئے گر ہے تو ہو
میں نہیں ہر گز برائے درد دل
There are currently 4 users browsing this thread. (0 members and 4 guests)
Bookmarks