میرے اندر چلی تھی آندھی ٹھیک اسی دن پت جھڑ کی
جس دن اپنے جوڑے میں اس نے کچھ پھول سجائے تھے
اس نے کتنے پیار سے اپنا کفر دیا نذرانے میں
ہم اپنے ایمان کا سودا جس سے کرنے آئے تھے
کیسے جاتی میرے بدن سے بیتے لمحوں کی خوشبو
خوابوں کی اس بستی میں کچھ پھول میرے ہمسائے تھے
کیسا پیارا منظر تھا جب دیکھ کے اپنے ساتھی کو
پیڑ پہ بیٹھی اک چڑیا نے اپنے پر پھیلائے تھے
رخصت کے دن بھیگی آنکھوں اس کا وہ کہنا ہائے قتیل
تم کو لوٹ ہی جانا تھا تو اس نگری کیوں آئے تھے
پہلے تو اپنے دل کی رضا جان جائیے
پھر جو نگاہِ یار کہے مان جائیے
پہلے مزاجِ راہ گزر جان جائیے
پھر گردِ راہ جو بھی کہے مان جائیے
کچھ کہہ رہی ہیں آپ کے سینے کی دھڑکنیں
میری سنیں تو دل کا کہا مان جائیے
اک دھوپ سی جمی ہے نگاہوں کے آس پاس
یہ آپ ہیں تو آپ پہ قربان جائیے
There are currently 3 users browsing this thread. (0 members and 3 guests)
Bookmarks