دامن سنبھال باندھ کمر آستیں چڑھا
خنجر نکال دل میں اگر امتحاں کی ہے
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
دل میں قمر کے جب سے ملی ہے اسے جگہ
اس دن سے ہو گیا ہے فلک پر دماغِ داغ
پھر نہ رکیے جو مدّعا کہیے
ایک کے بعد دوسرا کہیے
صبر فرقت میں آ ہی جاتا ہے
پر اسے دیر آشنا کہیے
جو رہِ عشق میں قدم رکھیں
وہ نشیب و فراز کیا جانیں
مسکراتے ہوئے وہ مجمعِ اغیار کے ساتھ
آج یوں بزم میں آئے ہیں کہ جی جانتا ہے
ہے دوا انکی آتشِ رخسار
سینکتے ہیں اس آگ پر آنکھیں
خاک پر کیوں ہو نقشِ پا تیرا
ہم بچھائیں زمین پر آنکھیں
There are currently 4 users browsing this thread. (0 members and 4 guests)
Bookmarks