خواہشیں کچھ مر گئی ہیں نیند میں
خواب کچھ بکھرے ہمارے ٹوٹ کر
بارشوں نے کام دریا کا کیا
کیا کریں گے اب کنارے ٹوٹ کر
اک تمہارا عشق زندہ رہ گیا
مر گئے ہم لوگ سارے ٹوٹ کر
مجھ کو پھر اذنِ مسافت دے گئے
آسماں پر کچھ ستارے ٹوٹ کر
ہم سفالِ بے مرکب ہیں ندیم
گر رہے ہیں بت ہمارے ٹوٹ کر
بچھڑ کے تجھ سے کہاں دور ہم کو جانا ہے
یہی کہ شام سے پہلے ہی لوٹ آنا ہے
تو میری آنکھ کو پہنا لہو لہو آنسو
کہ پانیوں سے تو رشتہ مرا پرانا ہے
تمام شب کی تھکن کو اتارنے کے لیے
ہماری آنکھ میں اب چاند نے نہانا ہے
یہ چاہتوں کا نہیں نفرتوں کا قصہ ہے
ابھی تو نام کہانی میں تیرا آنا ہے
There are currently 3 users browsing this thread. (0 members and 3 guests)
Bookmarks