بدن کے قفل چٹختے تھے اسم ایسا تھا
نگار خانہء جاں کا طلسم ایسا تھا
دہکتے ہونٹ اسے چھونے کو مچلتے تھے
سیہ گلابوں کی جیسی ہے قسم ایسا تھا
لبوں پہ جیسے دراڑیں ، کٹے پھٹے رخسار
کسی فراق کے پانی کا رِسم ایسا تھا
کسی کا پائوں اٹھا رہ گیا کسی کا ہاتھ
تمام شہر تھا ساکت ، طلسم ایسا تھا
رکا تھا وقت کا ناقوس بھی تحیر سے
بریدِ چاک سے مٹی کا بسم ایسا تھا
یہ اور بات کہ شیشہ تھا درمیاں منصور
چراغ ہوتا ہے جیسے وہ جسم ایسا تھا
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote

Bookmarks