google.com, pub-2879905008558087, DIRECT, f08c47fec0942fa0
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.
    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 3 of 3

    Thread: گورنمنٹ اسلامہ کالج قصور کے استاد اور ذوق &am

    1. #1
      UT Poet www.urdutehzeb.com/public_htmlwww.urdutehzeb.com/public_html Dr Maqsood Hasni's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Posts
      2,263
      Threads
      786
      Thanks
      95
      Thanked 283 Times in 228 Posts
      Mentioned
      73 Post(s)
      Tagged
      6322 Thread(s)
      Rep Power
      84

      گورنمنٹ اسلامہ کالج قصور کے استاد اور ذوق &am

      گورنمنٹ اسلامہ کالج قصور کے استاد اور ذوق شعر و سخنشاعری کے حق اور شاعری کے خلاف بہت کچھ کہا اور لکھا جاتا رہا ہے۔ مذہبی طبقوں کے ہاں بھی اسی دوہری صورت سے دوچار رہی ہے۔ غنائیت کی بنا پر اس کی مخالفت ہوتی رہی ہے' جب کہ فکری حوالہ سے نظر انداز بھی نہیں کیا گیا۔ خطبات میں شعری قرآت میں آتے رہے ہیں۔ اس کی مخالفت کی' غالبا ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شاعری اپنے عہد کے سیاسی حالات کی بھی امین ہوتی ہے۔ قصیدے کے علاوہ' تلخ حقائق کو بھی اپنے دامن میں سموئے چلی جاتی ہے۔ شاعر علامتوں' استعاروں اور اشاروں کنائیوں میں' وہ کچھ کہتا چلا جاتا ہے' جو اس عہد کے شاہ کے نازک دماغ پر گراں گزرتا ہے۔ شاعر شاہ کے گماشتوں کو بھی' لفظ کی گرفت میں لے لیتا ہے. بطور نمونہ فقط دو شعر ملاحظہ ہوں۔یہاں کوئی مجنوں کا کیا حال پوچھےکہ ہر گھر میں صحرا کا نقشہ بنا ہےخیال: رحمن بابا بار ہا دیکھی ہیں ان کی رنجشیںپر کچھ اب کے سرگرانی اور ہےغالبچشم قاتل تھی میری دشمن ہمیشہ لیکنجیسی اب ہو گئی قاتل کبھی ایسی تو نہ تھیظفراوہناں دا موڈ خراب ہوندا کئی واری ویکھیا اےپر ایتکیں تاںدوہائی ہوئی پئی اےمقصود حسنیسچ گوئی کی پاداش میں شاعر زندگی سے بھی گیے ہیں۔ جعفر زٹلی کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ فیض حبیب جالب وغیرہ کا جیون پرعتاب رہا۔ یہ سب اپنی جگہ شاعر اپنے عہد کی زبان اور اس کے چلن کا بھی امین رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ زبان کو نئے محاورے نئے مرکبات نئی ترکیبات نئی علامتیں استعارے تشببہات وغیرہ بھی فراہم کرتا چلا آ رہا ہے۔ وہ لفظ کو نئے معنی اور لفظ کے نئے استعمالات بھی دریافت کرتا چلا آ رہا ہے۔ لسانی سند کےلیے ہمشہ شعر ہی کو حوالہ بنایا گیا ہے۔ شاعر معاملات کو ناصرف الگ سے دیکھتا ہے بلکہ اس کا مشاہدہ بھی عموم سے قطعی ہٹ کر ہوتا ہے۔ اس کی آنکھ وہ کچھ بھی دیکھ لیتی ہے جو عام نہیں دیکھ پاتی۔ یہ کہنا کسی طرح درست نہیں کہ شاعری لایعنی چیز ہے اور غلط سمت فراہم کرتی ہے۔ زلف و رخسار زندگی سے الگ چیز نہیں ہیں اس لیے ان کے حوالہ سے کہا گیا بھی غلط نہیں۔ دوسرا شاعر موجود رجحان کی تصویر کشی کر رہا ہوتا ہے۔ لکھنوی شاعری فحاشی اور لایعنیت کا شکار نظر آتی ہے۔ لکھنوی معاشرت اور عمومی رجحانات بھی تو یہی تھے۔ اگر تلاش کرنے والی آنکھ سے دیکھا جائے تو کڑی تنقید بھی نظر آتی ہے۔ موازناتی صورتیں بھی دیکھائی دیتی ہیں۔ شاعر کی موازناتی آنکھ اوروں سے کہیں بڑھ کر بالغ ہوتی ہے۔ وہ ان سے ٹن ٹائم ایڈوانس ہوتی ہے۔ برصغیر روز اول سے مختلف نوعیت کے حالات کا شکار رہا ہے۔ چوں کہ اسے سونے کی چڑیا کی حیثیت حاصل رہی ہے یہی وجہ ہے بیرونی دنیا کی توجہ اس پر مرکوز رہی ہے۔ بہت سارے علاقوں کے لوگ محتلف حوالوں سے اس ولایت کا رخ احتیار کرتے رہے ہیں۔ یہ صورت آج بھی موجود ہے۔ دیسی و بدیسی رویتوں مزاجوں اور رویوں کی آمیزش یہاں بہ خوبی تلاشی جا سکتی ہے۔ ہندوستانی یعنی اردو+ ہندی+ رومن یہاں کی مجموعی زبان رہی ہے اور پورے ہند میں استعمال ہوتی رہی ہے اور آج دنیا دوسری بڑی زبان ہے۔ اس زبان میں شاعری کا ذخیرہ اپنی مثل آپ ہے۔ شعرا نے اپنے اپنے عہد کی بھرپور انداز میں عکاسی کی ہے۔ اس زبان کی ترقی میں شخصی اور مختلف اداروں کا عمل دخل رہا ہے۔ ہند کے بے شمار اداروں میں گورنمنٹ اسلامیہ کالج قصور بھی اس ذیل میں اپنے حصہ کا کرداار ادا کرتا چلا آ رہا ہے۔ اس کے سربراہان میں پروفیسر غلام ربانی عزیز ایسے عالم فاضل رہے ہیں۔ پروفیسر امجد علی شاکر علم دوست ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر بھی تھے۔ پروفیسر راؤ اختر علی شاعر تو نہیں ہیں لیکن شاعر دوست ضرور ہیں۔ مارننگ اسمبلی میں طلبا کو اچھے اچھے شعر زبانی یاد کرنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ اپنے خطاب میں اچھے اچھے شعروں کا تڑکا لگانا نہیں بھولتے۔ کالج انتظامیہ مشاعروں کا بھی اہتمام کرتی رہی ہے۔ مشاعروں میں معروف شعرا کو بھی مدعو کیا جاتا رہا ہے۔ گویا شعروسخن کی حوصلہ افزائی اس کالج کی قدیمی روایت ہے۔ کالج سے اچھے اچھے شاعر طالب علم تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو کر زندگی کے مختلف شعبوں میں خدمات انجام دیتے آ رہے ہیں۔ اسی طرح اساتذہ اور سٹاف کے لوگ بھی شعر وسخن کے ذوق سے متعلق رہے ہیں۔ یہاں دستیاب تفصیل درج کر رہا ہوں۔ پروفیسر احسان الہی ناوک شعبہ انگریزی سے متعلق تھے۔ پنجابی اور اردو کے شاعر تھے۔ نثر میں شوق رکھتے تھے۔ ترجمہ شدہ چیزیں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں۔ جدید اطوار رکھتے ہیں۔ یہ عنصر ان کے کلام میں ملتا ہے۔ ان کے کلام کا نمونہ دیکھیے۔قطعہدکھ درد زندگی کے سب مسکرا کے جھیلآہیں دبا دے سینے میں اور آنسووں کو پیلیکن کسی بھی حال میں مت زندگی سے بھاگمیں تو یہی کہوں گا کہ ہر حال میں تو جیالادب شمارہ ١٩٧٠-٧١احمد یار خاں مجبور ابتدائی عہد سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ اردو پنجابی اور فارسی کے شاعر تھے۔ انھوں نے خیام کی رعیایات کا چھے مصرعی ترجمہ بھی کیا۔ نمونہءکلام ملاحظہ ہودیکھنا یہ ہے کیا دکھاتی ہے ایک لغزش اگر بکھر جائےخیر تو خیر شر اگر نہ ہو ہمراہ کیا پتہ آدمی کدھر جائےآرزوئیں ہی آرزوئیں ہیں دیکھ لیجئے نظر جدھر جائےبابا مجبور۔ شخصیت فن اور شاعری مقالہ ایم فل مملوکہ علامہ اقبا اوپن یونیورسٹی اسلام آباد ١٩٩٥ ص١٤٦ ڈاکٹر اختر شمار کا تعلق بھی اس ادارے سے رہا ہے۔ ان دنوں چیئرمین شعبہءاردو ایف سی کالج لاہور ہیں۔ علامہ بیدل حیدری کے شاعری میں سند یافتہ ہیں۔ کالم نگاری میں بھی کمال کی مہارت رکھتے ہیں۔ یار باش آدمی ہیں۔ انھیں انقلابی فکر کا شاعر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ میں انھیں ہمیشہ ترقی پسند سمجھتا رہا ہوں اور وہ ہیں بھی باطنی سطع پر زبردست صوفی ہیں۔ ان کا تصوف میں ملفوف یہ شعر ملاحظہ ہوآخری وقت میں یہ بھید کھلا ہے ہم پرہم کسی نقل مکانی کے لیے زندہ ہیںاسلم طاہر شعبہءاردو سے متعلق رہے ہیں۔ بانسری بجانے میں مہارت رکھتے تھے۔اردو اور پنجابی میں شعر کہتے ہیں۔ فارسی سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ حال ہی میں انھوں نے ایم فل کا مقالہ بعنوان مقصود حسنی - شخصیت اور ادبی خدمات بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کو جمع کروایا ہے۔ بطور نمونہ دو شعر دیکھیےوہ جوئے علم و عرفاں ہم جس کے خوشہ چینکم فہم جس کے دم سے ہو جاتے ہیں ذہینوہ روح رواں اردو شعبے کی جو ہیں ڈین وہ نرم خو صورت مادام ڈاکٹر روبینہ ترینپروفیسر اظہر علی کاظمی خوش طبعی میں جواب نہیں رکھتے تھے۔ ان کا دستر خوان بڑا فراخ تھا۔مطالعہ بڑا وسیع تھا۔ بڑا عمدہ شعری ذوق رکھتے تھے۔ ان کا ایک شعری مجموعہ بھی شائع ہوا تھا۔ بطور ذائقہ دو شعر ملاحظہ ہوںایک مشت پر بجائے خود نشانی چھوڑ کرہو گیا خاموش کوئی نغمہ خوانی چھوڑ کرپا گیا وہ مقصد ایمان وایقاں کاظمیللیت جس کو آئی بدگمانی چھوڑ کرالادب ٢٠١٠-١١اکبر راہی لائبریری سے وابستہ تھے۔ کتب بینی کا شوق رکھتے تھے۔ اچھا شعری ذوق پایا تھا۔ پروفیسر اکرام ہوشیارپوری شعبہء اردو کے صدر اور الادب کے مدیر اعلی تھے۔ سنجیدہ طبع تھے۔ خاموش مگر متحرک شخصیت کے مالک تھے پاکستانیت ان کی رگ رگ میں بسی ہوئی تھی۔ افسانہ ڈرامہ اور تنقید لکھتے تھے۔ اردو اور پنجابی میں شاعری کرتے تھے۔ یہ دو شعر ان کی فکری پرواز کو واضح کرتے ہیںمیں ملا تھا تم ملے تھے ذکر اس کا چھوڑیئےاب ملیں یا نہ ملیں فکر اس کی چھوڑیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تیرا ملنا بھی عجب تھا اور بچھڑنا بھی غضبکچے دھاگے ٹٹ چکے اب کس سے رشتہ جوڑیئےالادب شمارہ ١٩٨٠-٨١امجد علی انجم کالج کے شعبہءاردو سے متعلق ہیں۔ شعری ذوق پایا ہے۔ بطوریہ شعر ملاحظہ ہوہیر رانجھا شیریں فرہاد کے قصے پرانے ہوئے انجمہر سو اب تیرا میرا پرچار ہے مانو کہ نہ مانوپروفیسر امجد علی شاکر کالج کے پرنسپل تھے. ان کا پرنسپل شپ کا عرصہ سب سے زیادہ ہے۔ پیدل چلنے میں ان کا ڈھونڈھے سے ثانی نہ مل سکے گا۔ شعرونثر میں برابر کی مہارت رکھتے ہیں۔ انھوں نے مقصود حسنی کے شعری مجموعے۔۔۔۔۔اوٹ سے۔۔۔۔۔ کو پنجابی لباس دیا۔ ان دنوں شاہدرہ کالج میں بطور پرنسپل فرائض انجام دے رہے ہیں۔ نمونہءکلام ملاحظہ ہواک شہر ناپرساں تھا شایدجس کا اک بھولا بھٹکارستہ بھول کے آیامیں نے واں پر لوگوں کواپنا جانا۔۔۔۔۔۔۔۔ان سے پیار کیامیں نے شہر کی کالی راتوں میںسچ کے دیپ جلائےچار طرف سے آندھی آئیہر اک دیپ بجھامیں نے پھر یہ دیپ جلائےشہر ناپرساں الادب شمارہ ٢٠٠٦-٧پروفیسر تنویر حسین شعبہءسیاسیات سے متعلق رہے ہیں۔ کلام میں وجاہت اور عصری جبریت کے اشارے بڑے واضح نظر آتے ہیں۔ یہ دو شعر ان سے ہیںحوادث روزوشب ہر موڑ پر ہر آن ہوتے ہیںہزاروں لوگ ہیں جو بےسروسامان ہوتے ہیں................کسی مفلس کا اب تنویر تو دیواں نہیں چھپتاکہ اہل زر یہاں اب صاحب دیوان ہوتے ہیںپروفیسر طارق جاوید شعبہ کامرس سے متعلق ہیں۔ نوجوان ہیں اور کچھ کر گزرنے کے جذبے سے سرشار ہیں۔ نثر بڑی خوب صورت لکھتے ہیں۔ ان کی تحریریں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ شعر کا بھی ذوق پایا ہے۔ ان کی شاعری عصری کرب کو واضع کرتی نظر آتی ہے۔ نمونہءکلام ملاحظہ ہورات کو جو سڑکوں پہ ناکے لگاتے ہیں یہبڑی دولت وہاں سے کماتے ہیں یہپجارو اور مرسڈیز کو جانے دیتے ہیںسکوٹر اور سوزوکی کو روک لیتے ہیںیہ نوکر تو سرکاری ہیںپر لگتے بھکاری ہیںنظم: پیام بنام سرکارپروفیسر عباس تابش شعبہءاردو سے متعلق رہے ہیں۔ شعری ذوق رکھتے تھے۔پروفیسر عبدالغفور ظفر شعبہءاسلامیات سے متعلق تھے۔ کھرے سچے اور بےباک انسان تھے۔ سیمابی طبعت اور مزاج کے آدمی تھے۔ شعرونثر سے برابر کا ذوق رکھتے تھے۔ ایک محفل میں ان کی بہاریہ نظم سننے کا اتفاق ہوا۔ کمال کی روانی اور کمال کی فصاحت تھی۔ پروفیسر عبدالغنی شعبہءانگریزی سے متعلق تھے۔ بڑی جاندار اور شاندار شخصیت کے مالک تھے۔ پنجابی اور اردو میں کہتے تھے۔ نمونہءکلام ملاحظہ ہوہوش و خرد کی بستی ہےمیرے جنون مجھ کو لے چلاک اک کرکے چور ہوئےیاں خوابوں کے تاج محلگھڑی گھڑی پربت پربتبوجھل بوجھل اک پلدیوانوں کی بستی میں میرے جنون مجھ کو لے چلالادب ٢٠٠٧-٨پروفیسر عبدالرحمن عابد اس کالج سے متعلق تھے۔ خوب صورت شعری ذوق رکھتے تھے۔ خوش کلام شاعر تھے۔ پروفیسر محمد سعید عابد شعبہءاسلامیات سے متعلق تھے۔ بڑے عالم فاضل تھے۔ علامہ اقبال اور استاد غالب ان کے مطالعہ میں رہتے تھے۔ خوش فکر شاعر تھے۔ یہ دو شعر ان سے ہیںخواب علو دین کی جو تعبیر چاہیےپیش نگاہ اسوءشبیر چاہیےعابد نہ ہو سکی کوئی تدبیر کارگراب تو بس اک نعرہءتکبیر چاہیےمقصود حسنی شعبہءاردو سے متعلق رہے ہیں۔ اردو پنجابی اور انگریزی میں کہتے ہیں۔ بطور نمونہ یہ نظم ملاحظہ ہوجب تک وہ قتل ہو گیاپھر قتل ہواایک بار پھر قتل ہوااس کے بعد بھی قتل ہواوہ مسلسل قتل ہوتا رہاجب تک سیٹھوں کی بھوک نہیں مٹ جاتیجب تک خواہشوں کا جنازہ نہیں اٹھ جاتاوہ قتل ہوتا رہے گاوہ قتل ہوتا رہے گاپروفیسر ندیم احسان راؤ ۔شعبہءانگریزی سے متعلق ہیں۔ بڑی پیاری شخصیت رکھتے ہیں۔ یہی عنصر ان کے کلام میں پایا جاتا ہے۔ ان کا کلام مختلف رسائل میں چھپتا رہتا ہے۔ یہ تین شعر ان سے ہیں:رمز باطن نہ کھل سکی لیکن صورت حسن بے حجاب ہوئی................تجھ کو مزدوری فرہاد کا احساس کہاںاوج پر رہتا ہے قسمت کا ستارا تیرا.......................جو توڑ دے فسون زروہ مرد خود شناس ہےپروفیسر نیامت علی شعبہءانگریزی سے متعلق ہیں۔ صوفی منش ہیں۔ بڑی صاف ستھری شخصیت کے مالک ہیں۔ اردو انگریزی اور پنجابی میں کہتے ہیں۔ ان کی پنجابی کافیوں میں ورفتگی پائی جاتی ہے۔ نثر بھی لکھتے ہیں۔ افسانہ نگار ہیں۔ نمونہءکلام ملاحظہ ہو۔ہر مرض کی جب شفا تو نے بنائیہر طرف پھیلے مرض لادوا ہیںہو کبھی بارش فضل کی اس چمن میںخوش نوا بلبل سراپا التجا ہیںتجزیہء شعر وسخن میں پروفیسر یونس حسن کمال کی مہارت رکھتے ہیں۔ اس ذیل میں ان کے چالیس سے زائد مقالہ جات مختلف ادبی رسائل وجراعد میں شائع ہو چکے ہیں۔ یہ تفصیل یقینا نامکمل ہے لیکن میں نے دستیاب مواد پیش کر دیا ہے۔امید ہے اہل ذوق احباب اس میں اضافہ کرتے رہیں گے۔


      Similar Threads:
      Last edited by intelligent086; 11-25-2014 at 09:12 PM.

    2. #2
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,411
      Threads
      12102
      Thanks
      8,637
      Thanked 6,946 Times in 6,472 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: گورنمنٹ اسلامہ کالج قصور کے استاد اور ذوق

      Quote Originally Posted by Dr Maqsood Hasni View Post
      گورنمنٹ اسلامہ کالج قصور کے استاد اور ذوق شعر و سخنشاعری کے حق اور شاعری کے خلاف بہت کچھ کہا اور لکھا جاتا رہا ہے۔ مذہبی طبقوں کے ہاں بھی اسی دوہری صورت سے دوچار رہی ہے۔ غنائیت کی بنا پر اس کی مخالفت ہوتی رہی ہے' جب کہ فکری حوالہ سے نظر انداز بھی نہیں کیا گیا۔ خطبات میں شعری قرآت میں آتے رہے ہیں۔ اس کی مخالفت کی' غالبا ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شاعری اپنے عہد کے سیاسی حالات کی بھی امین ہوتی ہے۔ قصیدے کے علاوہ' تلخ حقائق کو بھی اپنے دامن میں سموئے چلی جاتی ہے۔ شاعر علامتوں' استعاروں اور اشاروں کنائیوں میں' وہ کچھ کہتا چلا جاتا ہے' جو اس عہد کے شاہ کے نازک دماغ پر گراں گزرتا ہے۔ شاعر شاہ کے گماشتوں کو بھی' لفظ کی گرفت میں لے لیتا ہے. بطور نمونہ فقط دو شعر ملاحظہ ہوں۔یہاں کوئی مجنوں کا کیا حال پوچھےکہ ہر گھر میں صحرا کا نقشہ بنا ہےخیال: رحمن بابا بار ہا دیکھی ہیں ان کی رنجشیںپر کچھ اب کے سرگرانی اور ہےغالبچشم قاتل تھی میری دشمن ہمیشہ لیکنجیسی اب ہو گئی قاتل کبھی ایسی تو نہ تھیظفراوہناں دا موڈ خراب ہوندا کئی واری ویکھیا اےپر ایتکیں تاںدوہائی ہوئی پئی اےمقصود حسنیسچ گوئی کی پاداش میں شاعر زندگی سے بھی گیے ہیں۔ جعفر زٹلی کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ فیض حبیب جالب وغیرہ کا جیون پرعتاب رہا۔ یہ سب اپنی جگہ شاعر اپنے عہد کی زبان اور اس کے چلن کا بھی امین رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ زبان کو نئے محاورے نئے مرکبات نئی ترکیبات نئی علامتیں استعارے تشببہات وغیرہ بھی فراہم کرتا چلا آ رہا ہے۔ وہ لفظ کو نئے معنی اور لفظ کے نئے استعمالات بھی دریافت کرتا چلا آ رہا ہے۔ لسانی سند کےلیے ہمشہ شعر ہی کو حوالہ بنایا گیا ہے۔ شاعر معاملات کو ناصرف الگ سے دیکھتا ہے بلکہ اس کا مشاہدہ بھی عموم سے قطعی ہٹ کر ہوتا ہے۔ اس کی آنکھ وہ کچھ بھی دیکھ لیتی ہے جو عام نہیں دیکھ پاتی۔ یہ کہنا کسی طرح درست نہیں کہ شاعری لایعنی چیز ہے اور غلط سمت فراہم کرتی ہے۔ زلف و رخسار زندگی سے الگ چیز نہیں ہیں اس لیے ان کے حوالہ سے کہا گیا بھی غلط نہیں۔ دوسرا شاعر موجود رجحان کی تصویر کشی کر رہا ہوتا ہے۔ لکھنوی شاعری فحاشی اور لایعنیت کا شکار نظر آتی ہے۔ لکھنوی معاشرت اور عمومی رجحانات بھی تو یہی تھے۔ اگر تلاش کرنے والی آنکھ سے دیکھا جائے تو کڑی تنقید بھی نظر آتی ہے۔ موازناتی صورتیں بھی دیکھائی دیتی ہیں۔ شاعر کی موازناتی آنکھ اوروں سے کہیں بڑھ کر بالغ ہوتی ہے۔ وہ ان سے ٹن ٹائم ایڈوانس ہوتی ہے۔ برصغیر روز اول سے مختلف نوعیت کے حالات کا شکار رہا ہے۔ چوں کہ اسے سونے کی چڑیا کی حیثیت حاصل رہی ہے یہی وجہ ہے بیرونی دنیا کی توجہ اس پر مرکوز رہی ہے۔ بہت سارے علاقوں کے لوگ محتلف حوالوں سے اس ولایت کا رخ احتیار کرتے رہے ہیں۔ یہ صورت آج بھی موجود ہے۔ دیسی و بدیسی رویتوں مزاجوں اور رویوں کی آمیزش یہاں بہ خوبی تلاشی جا سکتی ہے۔ ہندوستانی یعنی اردو+ ہندی+ رومن یہاں کی مجموعی زبان رہی ہے اور پورے ہند میں استعمال ہوتی رہی ہے اور آج دنیا دوسری بڑی زبان ہے۔ اس زبان میں شاعری کا ذخیرہ اپنی مثل آپ ہے۔ شعرا نے اپنے اپنے عہد کی بھرپور انداز میں عکاسی کی ہے۔ اس زبان کی ترقی میں شخصی اور مختلف اداروں کا عمل دخل رہا ہے۔ ہند کے بے شمار اداروں میں گورنمنٹ اسلامیہ کالج قصور بھی اس ذیل میں اپنے حصہ کا کرداار ادا کرتا چلا آ رہا ہے۔ اس کے سربراہان میں پروفیسر غلام ربانی عزیز ایسے عالم فاضل رہے ہیں۔ پروفیسر امجد علی شاکر علم دوست ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر بھی تھے۔ پروفیسر راؤ اختر علی شاعر تو نہیں ہیں لیکن شاعر دوست ضرور ہیں۔ مارننگ اسمبلی میں طلبا کو اچھے اچھے شعر زبانی یاد کرنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ اپنے خطاب میں اچھے اچھے شعروں کا تڑکا لگانا نہیں بھولتے۔ کالج انتظامیہ مشاعروں کا بھی اہتمام کرتی رہی ہے۔ مشاعروں میں معروف شعرا کو بھی مدعو کیا جاتا رہا ہے۔ گویا شعروسخن کی حوصلہ افزائی اس کالج کی قدیمی روایت ہے۔ کالج سے اچھے اچھے شاعر طالب علم تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو کر زندگی کے مختلف شعبوں میں خدمات انجام دیتے آ رہے ہیں۔ اسی طرح اساتذہ اور سٹاف کے لوگ بھی شعر وسخن کے ذوق سے متعلق رہے ہیں۔ یہاں دستیاب تفصیل درج کر رہا ہوں۔ پروفیسر احسان الہی ناوک شعبہ انگریزی سے متعلق تھے۔ پنجابی اور اردو کے شاعر تھے۔ نثر میں شوق رکھتے تھے۔ ترجمہ شدہ چیزیں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں۔ جدید اطوار رکھتے ہیں۔ یہ عنصر ان کے کلام میں ملتا ہے۔ ان کے کلام کا نمونہ دیکھیے۔قطعہدکھ درد زندگی کے سب مسکرا کے جھیلآہیں دبا دے سینے میں اور آنسووں کو پیلیکن کسی بھی حال میں مت زندگی سے بھاگمیں تو یہی کہوں گا کہ ہر حال میں تو جیالادب شمارہ ١٩٧٠-٧١احمد یار خاں مجبور ابتدائی عہد سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ اردو پنجابی اور فارسی کے شاعر تھے۔ انھوں نے خیام کی رعیایات کا چھے مصرعی ترجمہ بھی کیا۔ نمونہءکلام ملاحظہ ہودیکھنا یہ ہے کیا دکھاتی ہے ایک لغزش اگر بکھر جائےخیر تو خیر شر اگر نہ ہو ہمراہ کیا پتہ آدمی کدھر جائےآرزوئیں ہی آرزوئیں ہیں دیکھ لیجئے نظر جدھر جائےبابا مجبور۔ شخصیت فن اور شاعری مقالہ ایم فل مملوکہ علامہ اقبا اوپن یونیورسٹی اسلام آباد ١٩٩٥ ص١٤٦ ڈاکٹر اختر شمار کا تعلق بھی اس ادارے سے رہا ہے۔ ان دنوں چیئرمین شعبہءاردو ایف سی کالج لاہور ہیں۔ علامہ بیدل حیدری کے شاعری میں سند یافتہ ہیں۔ کالم نگاری میں بھی کمال کی مہارت رکھتے ہیں۔ یار باش آدمی ہیں۔ انھیں انقلابی فکر کا شاعر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ میں انھیں ہمیشہ ترقی پسند سمجھتا رہا ہوں اور وہ ہیں بھی باطنی سطع پر زبردست صوفی ہیں۔ ان کا تصوف میں ملفوف یہ شعر ملاحظہ ہوآخری وقت میں یہ بھید کھلا ہے ہم پرہم کسی نقل مکانی کے لیے زندہ ہیںاسلم طاہر شعبہءاردو سے متعلق رہے ہیں۔ بانسری بجانے میں مہارت رکھتے تھے۔اردو اور پنجابی میں شعر کہتے ہیں۔ فارسی سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ حال ہی میں انھوں نے ایم فل کا مقالہ بعنوان مقصود حسنی - شخصیت اور ادبی خدمات بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کو جمع کروایا ہے۔ بطور نمونہ دو شعر دیکھیےوہ جوئے علم و عرفاں ہم جس کے خوشہ چینکم فہم جس کے دم سے ہو جاتے ہیں ذہینوہ روح رواں اردو شعبے کی جو ہیں ڈین وہ نرم خو صورت مادام ڈاکٹر روبینہ ترینپروفیسر اظہر علی کاظمی خوش طبعی میں جواب نہیں رکھتے تھے۔ ان کا دستر خوان بڑا فراخ تھا۔مطالعہ بڑا وسیع تھا۔ بڑا عمدہ شعری ذوق رکھتے تھے۔ ان کا ایک شعری مجموعہ بھی شائع ہوا تھا۔ بطور ذائقہ دو شعر ملاحظہ ہوںایک مشت پر بجائے خود نشانی چھوڑ کرہو گیا خاموش کوئی نغمہ خوانی چھوڑ کرپا گیا وہ مقصد ایمان وایقاں کاظمیللیت جس کو آئی بدگمانی چھوڑ کرالادب ٢٠١٠-١١اکبر راہی لائبریری سے وابستہ تھے۔ کتب بینی کا شوق رکھتے تھے۔ اچھا شعری ذوق پایا تھا۔ پروفیسر اکرام ہوشیارپوری شعبہء اردو کے صدر اور الادب کے مدیر اعلی تھے۔ سنجیدہ طبع تھے۔ خاموش مگر متحرک شخصیت کے مالک تھے پاکستانیت ان کی رگ رگ میں بسی ہوئی تھی۔ افسانہ ڈرامہ اور تنقید لکھتے تھے۔ اردو اور پنجابی میں شاعری کرتے تھے۔ یہ دو شعر ان کی فکری پرواز کو واضح کرتے ہیںمیں ملا تھا تم ملے تھے ذکر اس کا چھوڑیئےاب ملیں یا نہ ملیں فکر اس کی چھوڑیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تیرا ملنا بھی عجب تھا اور بچھڑنا بھی غضبکچے دھاگے ٹٹ چکے اب کس سے رشتہ جوڑیئےالادب شمارہ ١٩٨٠-٨١امجد علی انجم کالج کے شعبہءاردو سے متعلق ہیں۔ شعری ذوق پایا ہے۔ بطوریہ شعر ملاحظہ ہوہیر رانجھا شیریں فرہاد کے قصے پرانے ہوئے انجمہر سو اب تیرا میرا پرچار ہے مانو کہ نہ مانوپروفیسر امجد علی شاکر کالج کے پرنسپل تھے. ان کا پرنسپل شپ کا عرصہ سب سے زیادہ ہے۔ پیدل چلنے میں ان کا ڈھونڈھے سے ثانی نہ مل سکے گا۔ شعرونثر میں برابر کی مہارت رکھتے ہیں۔ انھوں نے مقصود حسنی کے شعری مجموعے۔۔۔۔۔اوٹ سے۔۔۔۔۔ کو پنجابی لباس دیا۔ ان دنوں شاہدرہ کالج میں بطور پرنسپل فرائض انجام دے رہے ہیں۔ نمونہءکلام ملاحظہ ہواک شہر ناپرساں تھا شایدجس کا اک بھولا بھٹکارستہ بھول کے آیامیں نے واں پر لوگوں کواپنا جانا۔۔۔۔۔۔۔۔ان سے پیار کیامیں نے شہر کی کالی راتوں میںسچ کے دیپ جلائےچار طرف سے آندھی آئیہر اک دیپ بجھامیں نے پھر یہ دیپ جلائےشہر ناپرساں الادب شمارہ ٢٠٠٦-٧پروفیسر تنویر حسین شعبہءسیاسیات سے متعلق رہے ہیں۔ کلام میں وجاہت اور عصری جبریت کے اشارے بڑے واضح نظر آتے ہیں۔ یہ دو شعر ان سے ہیںحوادث روزوشب ہر موڑ پر ہر آن ہوتے ہیںہزاروں لوگ ہیں جو بےسروسامان ہوتے ہیں................کسی مفلس کا اب تنویر تو دیواں نہیں چھپتاکہ اہل زر یہاں اب صاحب دیوان ہوتے ہیںپروفیسر طارق جاوید شعبہ کامرس سے متعلق ہیں۔ نوجوان ہیں اور کچھ کر گزرنے کے جذبے سے سرشار ہیں۔ نثر بڑی خوب صورت لکھتے ہیں۔ ان کی تحریریں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ شعر کا بھی ذوق پایا ہے۔ ان کی شاعری عصری کرب کو واضع کرتی نظر آتی ہے۔ نمونہءکلام ملاحظہ ہورات کو جو سڑکوں پہ ناکے لگاتے ہیں یہبڑی دولت وہاں سے کماتے ہیں یہپجارو اور مرسڈیز کو جانے دیتے ہیںسکوٹر اور سوزوکی کو روک لیتے ہیںیہ نوکر تو سرکاری ہیںپر لگتے بھکاری ہیںنظم: پیام بنام سرکارپروفیسر عباس تابش شعبہءاردو سے متعلق رہے ہیں۔ شعری ذوق رکھتے تھے۔پروفیسر عبدالغفور ظفر شعبہءاسلامیات سے متعلق تھے۔ کھرے سچے اور بےباک انسان تھے۔ سیمابی طبعت اور مزاج کے آدمی تھے۔ شعرونثر سے برابر کا ذوق رکھتے تھے۔ ایک محفل میں ان کی بہاریہ نظم سننے کا اتفاق ہوا۔ کمال کی روانی اور کمال کی فصاحت تھی۔ پروفیسر عبدالغنی شعبہءانگریزی سے متعلق تھے۔ بڑی جاندار اور شاندار شخصیت کے مالک تھے۔ پنجابی اور اردو میں کہتے تھے۔ نمونہءکلام ملاحظہ ہوہوش و خرد کی بستی ہےمیرے جنون مجھ کو لے چلاک اک کرکے چور ہوئےیاں خوابوں کے تاج محلگھڑی گھڑی پربت پربتبوجھل بوجھل اک پلدیوانوں کی بستی میں میرے جنون مجھ کو لے چلالادب ٢٠٠٧-٨پروفیسر عبدالرحمن عابد اس کالج سے متعلق تھے۔ خوب صورت شعری ذوق رکھتے تھے۔ خوش کلام شاعر تھے۔ پروفیسر محمد سعید عابد شعبہءاسلامیات سے متعلق تھے۔ بڑے عالم فاضل تھے۔ علامہ اقبال اور استاد غالب ان کے مطالعہ میں رہتے تھے۔ خوش فکر شاعر تھے۔ یہ دو شعر ان سے ہیںخواب علو دین کی جو تعبیر چاہیےپیش نگاہ اسوءشبیر چاہیےعابد نہ ہو سکی کوئی تدبیر کارگراب تو بس اک نعرہءتکبیر چاہیےمقصود حسنی شعبہءاردو سے متعلق رہے ہیں۔ اردو پنجابی اور انگریزی میں کہتے ہیں۔ بطور نمونہ یہ نظم ملاحظہ ہوجب تک وہ قتل ہو گیاپھر قتل ہواایک بار پھر قتل ہوااس کے بعد بھی قتل ہواوہ مسلسل قتل ہوتا رہاجب تک سیٹھوں کی بھوک نہیں مٹ جاتیجب تک خواہشوں کا جنازہ نہیں اٹھ جاتاوہ قتل ہوتا رہے گاوہ قتل ہوتا رہے گاپروفیسر ندیم احسان راؤ ۔شعبہءانگریزی سے متعلق ہیں۔ بڑی پیاری شخصیت رکھتے ہیں۔ یہی عنصر ان کے کلام میں پایا جاتا ہے۔ ان کا کلام مختلف رسائل میں چھپتا رہتا ہے۔ یہ تین شعر ان سے ہیں:رمز باطن نہ کھل سکی لیکن صورت حسن بے حجاب ہوئی................تجھ کو مزدوری فرہاد کا احساس کہاںاوج پر رہتا ہے قسمت کا ستارا تیرا.......................جو توڑ دے فسون زروہ مرد خود شناس ہےپروفیسر نیامت علی شعبہءانگریزی سے متعلق ہیں۔ صوفی منش ہیں۔ بڑی صاف ستھری شخصیت کے مالک ہیں۔ اردو انگریزی اور پنجابی میں کہتے ہیں۔ ان کی پنجابی کافیوں میں ورفتگی پائی جاتی ہے۔ نثر بھی لکھتے ہیں۔ افسانہ نگار ہیں۔ نمونہءکلام ملاحظہ ہو۔ہر مرض کی جب شفا تو نے بنائیہر طرف پھیلے مرض لادوا ہیںہو کبھی بارش فضل کی اس چمن میںخوش نوا بلبل سراپا التجا ہیںتجزیہء شعر وسخن میں پروفیسر یونس حسن کمال کی مہارت رکھتے ہیں۔ اس ذیل میں ان کے چالیس سے زائد مقالہ جات مختلف ادبی رسائل وجراعد میں شائع ہو چکے ہیں۔ یہ تفصیل یقینا نامکمل ہے لیکن میں نے دستیاب مواد پیش کر دیا ہے۔امید ہے اہل ذوق احباب اس میں اضافہ کرتے رہیں گے۔

      انتہائی اہم معلومات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



    3. #3
      UT Poet www.urdutehzeb.com/public_htmlwww.urdutehzeb.com/public_html Dr Maqsood Hasni's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Posts
      2,263
      Threads
      786
      Thanks
      95
      Thanked 283 Times in 228 Posts
      Mentioned
      73 Post(s)
      Tagged
      6322 Thread(s)
      Rep Power
      84

      Re: گورنمنٹ اسلامہ کالج قصور کے استاد اور ذوق

      bari bari meharbani janab
      Allah aap ko khush rakhe


    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •