طلسمِ گردشِ ایّام کس طرح ٹوٹے

نظر علیل، جنوں خام، فکر آوارہ



ہم نے جسے آزاد کیا حلقۂ شب سے

حاصل نہیں ہم کو اسی سورج کا اجالا



گونجتے ہیں شکیب آنکھوں میں

آنے والی کسی صدی کے گیت