خداوندان جمہورسے
عروسِ صبح سے آفاق ہمکنارسہی
شکستِ سلسلۂ قیدِ انتظار سہی
نگاہِ مہرِ جہاں تاب کیوں ہے شرمندہ
شفق کا رنگ شہیدوں کی یاد گار سہی
بکھرتے خواب کی کڑیوں کو آپ چن دیجے
کیا تھا عہد جو ہم نے وہ پائیدار سہی
ہجومِ لالہ و ریحاں سے داد چاہتے ہیں
یہ چاک چاک گریباں گلے کا ہار سہی
گنے جو زخم رگ جاں، شریک جشن حیات
پیے جو ساغرِ زہراب بادہ خوار سہی
چمن میں رنگ طرب کی کوئی کمی نہ رہے
ہمارا خون جگر غازۂ بہار سہی
Bookmarks