چھت کی تلاش





یہاں درخت کے اوپر اُگا ہوا ہے درخت

زمین تنگ ہے (جیسے کبھی فراخ نہ تھی)

ہوا کا کال پڑا ہے (نمی بھی عام نہیں)

سمندروں کو بِلو کر، فضاؤں کو مَتھ کر

جنم دئے ہیں اگر چند ابر کے ٹکڑے

جھپٹ لیا ہے انھیں یوں دراز شاخوں نے

کہ نیم جان تنے کو ذرا خبر نہ ہوئی

جڑیں بھی خاک تلے ایک ہی لگن میں رواں

نہ تیرگی سے مفر ہے، نہ روشنی کا سوال

زمیں میں پاؤں دھنسے ہیں، فضا میں ہات بلد

نئی جہت کا لگے اب درخت میں پیوند