لرز تا دیپ
دودِ شب کا سرد ہاتھ
آسماں کے خیمۂ زنگار کی
آخری قندیل گُل کرنے بڑھا
اور کومل چاندنی
ایک دربستہ گھروندے سے پرے
مضمحل پیڑوں پہ گر کر بجھ گئی
بے نشاں سائے کی دھیمی چاپ پر
اونگھتے رستے کے ہر ذرے نے پل بھر کیلئے
اپنی پلکوں کی بجھی درزوں سے جھانکا
اور آنکھیں موند لیں
اس سمے طاق شکستہ پر لرزتے دیپ سے
میں نے پوچھا
ہم نفس
اب ترے بجھنے میں کتنی دیر ہے؟



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote
Bookmarks