جاتی ہے دھوپ اُجلے پروں کو سمیٹ کے
زخموں کو اب گنوں گا میں بستر پہ لیٹ کے
میں ہاتھ کی لکیریں مٹانے پہ ہوں بضِد
گو جانتا ہوں نقش نہیں یہ سلیٹ کے
دنیا کو کچھ خبر نہیں کیا حادثہ ہوا
پھینکا تھا اس نے سنگ گلوں میں لپیٹ کے
فوّارے کی طرح نہ اُگل دے ہر ایک بات
کم کم وہ بولتے ہیں جو گہرے ہیں پیٹ کے
اک نقرئی کھنک کے سوا کیا ملا شکیبؔ
ٹکڑے یہ مجھ سے کہتے ہیں ٹوٹی پلیٹ کے



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote
Bookmarks