مٹھے چشموں سے خکب چھاؤں سے دور
زخم کھلتے ہںچ ترے گاؤں سے دور

سنگ منزل نے لہو اگلا ہے
دور ہم بادیہ پماٹؤں سے دور

کتنی شمںاہ ہںگ اسرد فانوس
کتنے یوسف ہںں زلخا ؤں سے دور

کشتِ امد سلگتی ہی رہی
ابر برسا بھی تو صحراؤں سے دور

جور حالات بھلا ہو تر ا
چنر ملتا ہے شناساؤں سے دور

جنت فکر بلاتی ہے چلو
دیر و کعبہ سے کلسا ؤں سے دور

رقصِ آشفتہ سراں دیںھچ گے
دور ان انجمن آراؤں سے دور

جستجو ہے در یکتا کی شکبر
ساتج ں چنتے ہں دریاؤں سے دور