رکھتا ہے ہم سے وعدہ ملنے کا یار ہر شب
سوجاتے ہیں ولیکن بختِ کنار ہر شب
دھوکے ترے کس دن میں جان دے رہوں گا
کرتا ہے ماہ میرے گھر سے گزار ہر شب
مجلس میں مَیں نے اپنا سوزِ جگر کہا تھا
روتی ہے شمع تب سے بے اختیار ہر شب
مایوسِ وصل اس کے کیا سادہ مردماں ہیں
گزرے ہے میرؔ اُن کو امیدوار ہر شب
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote
Bookmarks