Reserved Page.................
Similar Threads:
Reserved Page.................
Similar Threads:
Last edited by intelligent086; 09-02-2014 at 09:57 PM.
ہے میرے گرد کثرتِ شہر جفا پرست
تنہا ہوں اس لیے ہوں میں اتنا انا پرست
صحن بہار گل میں کفِ گل فروش
شامِ وصالِ یار میں دستِ حنا پرست
تھا ابتدائے شوق میں آرامِ جاں بہت
پر ہم تھے اپنی دھن میں بہت انتہا پرست
بامِ بلندِ یار پہ خاموشیاں سی ہیں
اس وقت وہ کہاں ہے وہ یارِ ہوا پرست
گمراہیوں کا شکوہ نہ کر اب تو اے منیر
تو ہی تھا سب سے بڑھ کر یہاں رہنما پرست
٭٭٭
ایک نگر کے نقش بھلا دوں ایک نگر ایجاد کروں
ایک طرف خاموشی کر دوں ایک طرف آباد کروں
منزل شب جب طے کرنی ہے اپنے اکیلے دم سے ہی
کس لیے اس جگہ پہ رک کر دن اپنا برباد کروں
بہت قدیم کا نام ہے کوئی ابر و ہوا کے طوفاں میں
نام جو میں اب بھول چکا ہوں کیسے اس کو یاد کروں
جا کے سنوں آثارِ چمن میں سائیں سائیں شا خوں کی
خالی محل کے برجوں سے دیدارِ برق و باد کروں
شعر منیر لکھوں میں اٹھ کر صحن سحر کے رنگوں میں
یا پھر کامِ نظم جہاں کا شام ڈھلے کے بعد کروں
٭٭٭
خاکِ میداں کی حدتوں میں سفر
جیسے حیرت کی وسعتوں میں سفر
خوب لگتا ہے اس کے ساتھ مجھے
وصل کی شب کی خواہشوں میں سفر
اس نگر میں قیام ایسا ہے
جیسے بے انت پانیوں میں سفر
دیر تک سیر شہر خوباں کی
دور تک دل کے موسموں میں سفر
بیٹھے بیٹھے تھک سے گئے
کر کے دیکھیں گے ان دنوں میں سفر
٭٭٭
نام بے حد تھے مگر ان کا نشاں کوئی نہ تھا
بستیاں ہی بستیاں تھیں پاسباں کوئی نہ تھا
خرم و شاداب چہرے ثابت و سیار دل
اک زمیں ایسی تھی جس کا آسماں کوئی نہ تھا
کیا بلا کی شام تھی صبحوں، شبوں کے درمیاں
اور میں ان منزلوں پر تھا جہاں کوئی نہ تھا
ہر مکاں اک راز تھا اپنے مکینوں کے سبب
رشتہ میرا اور جن کے درمیاں کوئی نہ تھا
تھا وہاں موجود کوئی بام و در کے اس طرف
خامشی تھی اس قدر جیسے وہاں کوئی نہ تھا
کوکتی تھی باسنری چاروں دشاؤں میں منیر
پر نگر میں اس صدا کا راز داں کوئی نہ تھا
٭٭٭
بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا
اک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا
چھلکائے ہوئے چلنا خوشبو لبِ لعلیں کی
اک باغ سا ساتھ مہکائے ہوئے رہنا
اس حسن کا شیوہ ہے جب عشق نظر آئے
پردے میں چلے جانا شرمائے ہوئے رہنا
اک شام سی کر رکھنا کاجل کے کرشمے سے
اک چاند سا آنکھوں میں چمکائے ہوئے رہنا
عادت سی بنا لی ہے تم نے تو منیر اپنی
جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا
٭٭٭
زندہ رہیں تو کیا جو مر جائیں ہم تو کیا
دنیا سے خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا
ہستی ہی اپنی کیا ہے زمانے کے سامنے
اک خواب ہیں جہاں میں بکھر جائیں تو کیا
اب کون منتظر ہے ہمارے لیے وہاں
شام آ گئی ہے لوٹ کے گھر جائیں ہم تو کیا
دل کی خلش تو ساتھ رہے گی تمام عمر
دریائے غم کے پار اتر جائیں ہم تو کیا
٭٭٭
اور ہیں کتنی منزلیں باقی
جان کتنی ہے جسم میں باقی
زندہ لوگوں کی بود باش میں
مردہ لوگوں کی عادتیں باقی
اس سے ملنا خوابِ ہستی میں
خواب معدوم، حسرتیں باقی
بہہ گئے رنگ و نور کے چشمے
رہ گئی ان کی رنگتیں باقی
جن کے ہونے سے ہم بھی ہیں اے دل
شہر میں ہیں وہ صورتیں باقی
وہ تو آ کے منیر جا بھی چکا
اک مہک سی ہے باغ میں باقی
٭٭٭
یہ کیسا نشہ ہے، میں کس عجب خمار میں ہوں
تو آ کے جا بھی چکا ہے، میں انتظار میں ہوں
مکاں ہے قبر، جسے لوگ خود بناتے ہیں
میں اپنے گھر میں ہوں یا میں کسی مزار میں ہوں
درِ فصیل کھلا، یا پہاڑ سر سے ہٹا
میں اب گری ہوئی گلیوں کے مرگ زار میں ہوں
بس اتنا ہوش ہے مجھ کو اجنبی ہیں سب
رکا ہوا ہوں سفر میں، کسی دیار میں ہوں
میں ہوں بھی اور نہیں بھی، عجیب بات ہے یہ
یہ کیسا جبر ہے میں جس کے اختیار میں ہوں
منیر دیکھ شجر، چاند اور دیواریں
ہوا خزاں کی ہے سر پر، شب بہار میں ہوں
٭٭٭
آ گئی یاد شام ڈھلتے ہی
بجھ گیا دل چراغ جلتے ہی
کھل گئے شہر غم کے دروازے
اک ذرا سی ہوا کے چلتے ہی
کون تھا تو کہ پھر نہ دیکھا تجھے
مٹ گیا خواب آنکھ ملتے ہی
خوف آتا ہے اپنے ہی گھر سے
ماہ شب تاب کے نکلتے ہی
تو بھی جیسے بدل سا جاتا ے
عکسِ دیوار کے بدلتے ہی
خون سا لگ گیا ہاتھوں میں
چڑھ گیا زہر گل مسلتے ہی
٭٭٭
اگا سبزہ در و دیوار پر آہستہ آہستہ
ہوا خالی صداؤں سے نگر آہستہ آہستہ
گھرا بادل خموشی سے خزاں آثار باغوں پر
ہلے ٹھنڈی ہواؤں میں شجر آہستہ آہستہ
بہت ہی سست تھا منظر لہو کے رنگ لانے کا
نشاں آخر ہوا یہ سرخ تر آہستہ آہستہ
چمک زر کی اُسے آخر مکانِ خاک میں لائی
بنایا ناگ نے جسموں میں گھر آہستہ آہستہ
مرے باہر فصیلیں تھیں غبارِ خاک و باراں کی
ملی مجھ کو ترے غم کی خبر آہستہ آہستہ
منیر اس ملک پہ آسیب کا سایہ ہے یہ کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
٭٭٭
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks