رشتۂ خیال

کبھی کسی بام کے کنارے
اُگے ہوئے پیڑ کے سہارے
مجھے ملی وہ مست آنکھیں
جو دل کے پاتال میں اتر کر
گئے دنوں کی گپھا میں جھانکیں


کبھی کسی اجنبی نگر میں
کسی اکیلے، اداس گھر میں
پری رخوں کی حسیں سبھا میں
کسی بہارِ گریز پا میں
کسی سرِ رہ، کبھی سرِ کو
کبھی پسِ در، کبھی لبِ جو
مجھے ملی ہیں وہی نگاہیں
جو ایک لمحے کی دوستی میں
ہزار باتوں کو کہنا چاہیں

٭٭٭