Reserved Page.................
Similar Threads:
Reserved Page.................
Similar Threads:
Last edited by intelligent086; 09-02-2014 at 09:57 PM.
لازم نہیں کہ اُس کو بھی میرا خیال ہو
جو میرا حال ہے، وہی اُس کا بھی حال ہو
کچھ اور دل گداز ہوں اس شہرِ سنگ میں
کچھ اور پر ملال، ہوائے ملال ہو
باتیں تو ہوں کہ کچھ دلوں کی خبر ملے
آپس میں اپنے کچھ تو جواب و سوال ہوں
رہتے ہیں آج جس میں جسے دیکھتے ہیں ہم
ممکن ہے یہ گزشتہ کا خواب و خیال ہو
سب شور شہر خاک کا ہے قربِ آب سے
پانی نہ ہو تو شہر کا جینا محال ہو
معدوم ہوتی جاتی ہوئی شے ہے یہ جہاں
ہر چیز اس کی جیسے فنا کی مثال ہو
کوئی خبر خوشی کی کہیں سے ملے منیر
ان روز و شب میں ایسا بھی اک دن کمال ہو
٭٭٭
یہ آنکھ کیوں ہے یہ ہاتھ کیا ہے
یہ دن کیا چیز رات کیا ہے
فراقَ خورشید و ماہ کیوں ہے
یہ اُن کا اور میرا ساتھ کیا ہے
گماں ہے کیا اس صنم کدے پر
خیالِ مرگ و حیات کیا ہے
فغاں ہے کس کے لیے دلوں میں
خروشِ دریائے ذات کیا ہے
فلک ہے کیوں قید مستقل میں
زمیں پہ حرفِ نجات کیوں ہے
ہے کون کس کے لیے پریشان
پتہ تو دے اصل بات کیا ہے
ہے لمس کیوں رائیگاں ہمیشہ
فنا میں خوفِ ثبات کیا ہے
منیر اس شہرِ غم زدہ پر
ترا یہ سحرِ نشاط کیا ہے
٭٭٭
خمارِ شب میں اُسے سلام کر بیٹھا
جو کام کرنا تھا مجھ کو، وہ کام کر بیٹھا
قبائے زرد پہن کر وہ بزم میں آیا
گل حنا کو ہتھیلی میں تھام کر بیٹھا
چھپا گیا تھا محبت کا راز میں تو مگر
وہ بھولپن میں سخن دل عام کر بیٹھا
جو سو کے اٹھا تو راستہ اجاڑ لگتا تھا
پہنچنا تھا مجھے منزل پہ، شام کر بیٹھا
تھکن سفر کی بدن شل کر گئی ہے منیر
برا کیا جو سفر میں قیام کر بیٹھا
٭٭٭
ابھی مجھے اک صدا کی ویرانی سے گزرنا ہے
ایک ،مسافت ختم ہوئی، اک سفر ابھی کرنا ہے
گری ہوئی دیواروں میں جکڑے سے ہوئے دروازوں کی
خاکستر سی دہلیزوں پر سرد ہوا نے ڈرنا ہے
ڈر جانا ہے دشت و جبل نے تنہائی کی ہیبت سے
آدھی رات کو جب مہتاب نے تاریکی سے ابھرنا ہے
یہ تو آغاز ہے جیسے اُس پہنائے حیرت کا
آنکھ نے اور سنور جانا ہے رنگ نے اور نکھر جانا ہے
جیسے زر کی پیلاہٹ میں موجِ خون اترتی ہے
زہرِ زر کے تند نشے نے دیدہ و دل میں اترنا ہے
٭٭٭
سفر میں ہے جو ازل سے یہ وہ بلا ہی نہ ہو
کواڑ کھول کے دیکھو کہیں ہوا ہی نہ ہو
نگاہِ آئینہ معلوم، عکس نامعلوم
دکھائی دیتا ہے جو اصل میں چھپا ہی نہ ہو
زمیں کے گرد بھی پانی، زمیں کی تہ میں بھی
یہ شہر جم کے کھڑا ہے جو تیرتا ہی نہ ہو
نہ جا کہ اس سے پرے دشت مرگ ہو شاید
پلٹنا چاہیں وہاں سے تو راستہ ہی نہ ہو
میں اس خیال سے جاتا نہیں وطن کی طرف
کہ مجھ کو دیکھ کے اُس بت کا جی برا ہی نہ ہو
کٹی ہے جس کے خیالوں میں عمر اپنی منیر
مزا تو جب ہے کہ اُس شوخ کو پتا ہیں نہ ہو
٭٭٭
کیسی کیسی بے ثمر یادوں کے ہالوں میں رہے
ہم بھی اتنی زندگی کیسے وبالوں میں رہے
اک نظر بندی کا عالم تھی نگر کی زندگی
قد میں رہتے تھے جب تک شہر والوں میں رہے
ہم اگر ہوتے تو ملتے تجھ سے بھی جانِ جہاں
خواب تھے، ناپید دنیا کے ملالوں میں رہے
وہ چمکنا برق کا دشت و درو دیوار پر
سار ے منظر ایک پل س کے اجالوں میں رہے
کیا تھیں وہ باتیں جو کہنا چاہتے تھے وقتِ مرگ
آخری دم یار اپنے ک خیالوں میں رہے
دور تک مسکن تھے بن اُن کی صداؤں کے منیر
دیر تک ان ناریوں کے غم شوالوں میں رہے
٭٭٭
جمال یار کا دفتر رقم نہیں ہوتا
کسی جتن سے بھی یہ کام کم نہیں ہوتا
تمام اجڑے خرابے حسیں نہیں ہوتے
ہر اک پرانا مکاں قصر جم نہیں ہوتا
تمام عمر رفتگاں کو تکتی رہے
کسی نگاہ میں اتنا دم نہیں ہوتا
یہی سزا ہے مری اب جو میں اکیلا ہوں
کہ میرا سر تیرے آگے بھی خم نہیں ہوتا
وہ بے حسی ہے مسلسل شکستِ دل سے منیر
کوئی بچھڑ کے چلا جائے غم نہیں ہوتا
٭٭٭
اس شہر سنگ دل کو جلا دینا چاہیے
پھر اس کی خاک کو بھی اڑا دینا چاہیے
ملتی نہیں پناہ ہمیں جس زمین پر
اک حشر اس زمیں پہ اٹھا دینا چاہیے
حد سے گزر گئی ہے یہاں رسم قاہری
اس دہر کو اب اس کی سزا دینا چاہیے
ایک تیز رعد جیسے صدا ہر مکان میں
لوگوں کو اُن کے گھر میں ڈرا دینا چاہیے
گم ہو چلے ہو تم تو بہت خود میں اے منیر
دنیا کو کچھ تو اپنا پتہ دینا چاہیے
٭٭٭
چمن میں رنگِ بہار اترا تو میں نے دیکھا
نظر سے دل کا غبار اترا تو میں نے دیکھا
میں نیم شب آسماں کی وسعت کو دیکھتا تھا
زمیں پہ وہ حسن زار اترا تو میں نے دیکھا
گلی کے باہر تمام منظر بدل گئے تھے
جو سایہ کوئے یار سے اترا تو میں نے دیکھا
خمارِ مے میں وہ چہرہ کچھ اور لگ رہا تھا
دمِ سحر جب خمار اترا تو میں نے دیکھا
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
٭٭٭
سن بستیوں کا حال جو حد سے گزر گئیں
اُن امتوں کا ذکر جو راستوں میں مر گئیں
کر یاد اُن دنوں کو کہ آباد تھیں یہاں
گلیاں جو خاک و خون کی دہشت سے بھر گئیں
صر صر کی زد میں آئے ہوئے بام و در کو دیکھ
کیسی ہوائیں کیسا نگر سرد کر گئیں
کیا باب تھے یہاں جو صدا سے نہیں کھلے
کیسی دعائیں تھیں جو یہاں بے اثر گئیں
تنہا اجاڑ برجوں میں پھرتا ہے تو منیر
وہ زر فشانیاں ترے رخ کی کدھر گئیں
٭٭٭
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks