پنجابی کلام
پت جھر دی شام
وا چلے تے گھر وچ بیٹھیاں کڑیاں دا جی ڈر دا اے
اچیاں اچیاں رکھاں ہیٹھاں پتراں دا مینہ ورہدا اے
لمیاں سُنجیاں گلیاں دے وچ سورج ہوکے بھردا
اپنے ویلے توں وی پہلے تارے ٹمکن لگے نیں
گھپ ہنریاں سوچاں اند دکھ دے دیوئے جگے نیں
دریاواں تے ڈھلدے دن پرچھانوں پیا تردا اے
ہلے تے پتھراں دا وی جی رون نوں کر دا اے
٭٭٭
اُس کا نقشہ ایک بے ترتیب افسانے کا تھا
یہ تماشا تھا یا کوئی*خواب دیوانے کا تھا
سارے کرداروں میں بے رشتہ تعلق تھا کوئی
ان کی بے ہوشی میں غم سا ہوش آ جانے کا تھا
عشق کیا ہم نے کیا آوارگی کے عہد میں
ایک جتن بے چینیوں سے دل کو بہلانے کا تھا
خواہشیں ہیں گھر سے باہر دور جانے کی بہت
شوق لیکن دل میں واپس لوٹ کر آنے کا تھا
لے گیا دل کو جو اس محفل کی شب میں اے منیر
اس حیسں کا بزم میں انداز شرمانے کا تھا
٭٭٭
غم میں تمام رات کا جاگا ہوا تھا میں
صبحِ چمن میں چین سے سویا ہوا تھا میں
ایک ہفت رنگ ہار گرا تھا مرے قریب
اک اجنبی سے شہر میں آیا ہوا تھا میں
ترتیب مجھ کو پھر سے نئی عمر سے دیا
اک عمر کے طلسم میں بکھرا ہوا تھا میں
پہچان سا رہا تھا میں اطراف شام میں
ان راستوں سے پہلے بھی گزرا ہوا تھا میں
میں ڈر گیا تھا دستکِ غم خوار یار سے
کچھ حادثات دہر سے سہما ہوا تھا میں
خود کھو گیا میں خواہشِ بے نام میں منیر
گھر سے کسی تلاش میں نکلا ہوا تھا میں
٭٭٭
پھر صبح کی ہوا میں جی ملال آئے
جس سے جدا ہوئے تھے اُس کے خیال آئے
اس عمر میں غضب تھا اُس گھر کا یاد رہنا
جس عمر میں گھروں سے ہجرت کے سال آئے
اچھی مثال بنتیں ظاہر اگر وہ ہوتیں
ان نیکیوں کو تو ہم دریا میں ڈال آئے
جن کا جواب شاید منزل پہ بھی نہیں تھا
رستے میں اپنے دل میں ایسے سوال آئے
کل بھی تھا آج جیسا ورنہ منیر ہم بھی
وہ کام آج کرتے کل پر جو ٹال آئے
٭٭٭
اُس سمت مجھ کو یار نے جانے نہیں دیا
اک اور شہر یار میں آنے نہیں دیا
کچھ وقت چاہتے تھے کہ سوچیں ترے لیے
تو نے وہ وقت ہم کو زمانے نہیں دیا
منزل ہے اس مہک کی کہاں کس چمن میں ہے
اس کا پتہ سفر میں ہوا نے نہیں دیا
روکا انا نے کاوش بے سود سے مجھے
اس بت کا اپنا حال سنانے نہیں دیا
ہے جس کے بعد عہدِ زوال آشنا منیر
اتنا کمال ہم کو خدا نے نہیں دیا
٭٭٭
غم سے لپٹ ہی جائیں گے ایسے بھی ہم نہیں
دنیا سے کٹ ہی جائیں گے ایسے بھی ہم نہیں
دن رات بانٹتے ہیں ہمیں مختلف خیال
یوں ان میں بٹ ہی جائیں گے ایسے بھی ہم نہیں
اتنےسوال دل میں ہیں اور وہ خموش در
اُس در سے ہٹ ہی جائیں گے اہسے بھی ہم نہیں
ہیں سختی سفر سے بہت تنگ پر منیر
گھر کو پلٹ ہی جائیں گے ایسے بھی ہم نہیں
٭٭٭
ساعت ہجراں ہے اب کیسےجہانوں میں رہوں
کن علاقوں میں بسوں میں کن مکانوں میں رہوں
ایک دشتِ لامکاں پھیلا ہے میرے ہر طرف
دشت سے نکلوں تو جا کر کن ٹھکانوں میں رہوں
علم ہے جو میرے پاس کس جگہ افشا کروں
یا ابد تک اس خبر کے راز دانوں میں رہوں
وصل کی شام سیہ اس سے پرے آبادیاں
خواب دائم ہے یہی میں جن زمانوں میں رہوں
یہ سفر معلوم کا معلوم تک ہے اے منیر
میں کہاں تک ان حدوں کے قید خانوں میں رہوں
٭٭٭
محفل آرا تھے مگر پھر بھی کم نما ہوتے گئے
دیکھتے ہی دیکھتے کیا سے کیا ہوتے گئے
ناشناسی دہر کی تنہا ہمیں کرتی گئی
ہوتے ہوتے ہم زمانے سے جدا ہوتے گئے
منتظر جیسے تھے در شہرِ فراق آثار کے
اک ذرا دستک ہوئی در و بام وا ہوتے گئے
حرف پردہ پوش تھے اظہارِ دل کے باب میں
حرف جتنے شہر میں تھے حرفِ لا ہوتے گئے
وقت کس تیزی سے گزرا روزمرہ میں منیر
آج کل ہوتا گیا اور دن ہوا ہوتے گئے
٭٭٭
کسی خوشی کے سراغ جیسا
وہ رخ ہے ہستی کے باغ جیسا
بہت سے پروں میں نور جیسے
حجابِ شب میں چراغ جیسا
خیال جاتے ہوئے دنوں کا
ہے گم حقیقت کے داغ جیسا
اثر ہے اس کی نظر کا مجھ پر
شراب گل کے ایاغ جیسا
منیر تنگی میں خواب آیا
کھلی زمیں کے فراغ جیسا
٭٭٭
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks