اس شہر کا کیا جانئے کیا ہوکے رہے گا
ہر شخص بضد ہے کہ خدا ہو کے رہے گا
شعلہ سا وہ لپکا ہے کہستاں میں مکرر
خاشاک کا فرعون فنا ہو کے رہے گا
آباد بڑی دیر سے ہے شہرِ تمنا
اک روز درِ شہر بھی وا ہو کے رہے گا
اِس شہر پنہ کا ہمیں سایہ ہی بہت ہے
سودائے وطن سر پہ ردا ہو کے رہے گا
پھر دشمنِ ایماں نے نئی چال چلی ہے
کہتا ہے کہ وہ بندہ مرا ہو کے رہے گا
وعدوں پہ ترے چھوڑ دیا ہم نے بہلنا
اب خونِ جگر رنگِ حنا ہو کے رہے گا
لکھنا ہے مجھے نوحۂ برگِ گلِ یابس
یہ قرضِ محبت ہے ادا ہو کے رہے گا
***
یعقوب آسی
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote
Bookmarks