زندگی جمود کا شکار ہوئی پڑی ہے ہر طرف سناٹا خاموشی آخر کب پیچھا چھوٹے گا اس یکسانیت بھرے ماحول سے میں بہت تنگ آ گئی ہوں، وہ میرے ساتھ پارک میں بیٹھی اپنے دل کو ہمیشہ کی طرح ہلکا کرنے میں مصروف تھی.
اور میں ہمیشہ کی طرح دیدہ دل فراش کئے اس کی باتیں سن رہا تھا. آخر تم اتنا منفی کیوں سوچتی ہو؟ میں نے اسے سمجھانے کی اپنی سی سعی کی ، نہیں تم نہیں سمجھو گے لوگو کے روئیے بھی یکسانیت کا شکار ہیں. میں جتنا کوشش کر لوں لوگوں کی خاطر خود کو بدلنے کی لکین ان پہ اثر تک نہیں ہوتا.
تو بھئی آخرتمہیں کہا کس نے ہے بدلو لوگوں کی خاطر خود کو، تم جیسی ہو ویسی ہی اچھی لگتی ہو. میں نے پھر سے اسے سمجھانا چاہا،
نہیں نا لوگ چاھتے ہیں کے میں بدلوں، لوگوں کی طرح ان کے روئیے بھی یکسانیت کا شکار ہیں.
اف آخر تم اس یکسانیت سے بھر نکلو بھی گی یا نہیں میں نے چڑ کر اس سے کہا.
ہا ہا دیکھا تم بھی تنگ آ گے نا مجھ سے، عجیب سی ہنسی ہنس دی وہ.
اور میں صرف دیکھتا ہی رہ گیا اسے آخر یہ اتنے دور کیوں چلی گئی ہے.
پھر آخری دفع اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ شاید وہ سمجھ جاۓ.
دیکھو لوگو کی خاطر خود کو بدلوں گی تو وہ تم میں اور تبدیلیاں دیکھنا چاہیں گے اور تم ایسا کرتے کرتے تنگ آ جاؤ گی جیسے اب تقریبا آ چکی ہو. اس بدلنے کے چکّر میں بہت دفع ٹوٹ جاؤ گی پھر سنبھلو گیلیکن آخر کب تک.
ہاں نا میں جتنی بھی کوشش کر لوں پھر بھی لوگ دل توڑ دیتے ہیں، میری بات کاٹتے ہوے وہ فورا بولی
ہاں تو پھر اس جمود سے بھر نکلو کچھ عملی کام کرو،تمہیں پینٹنگ کا شوق ہے نا تو بس آج سے پینٹنگ کرو اور اپنی خود ساختہ پریشانیوں سے پیچھا چھڑاؤ. میں نے گویا تابوت میں آخری کیل ٹھونکی
ہاں میں کرو گی کوشش اس نے بات سمجھتے ہوے سر ہلا دیا.
اورمجھے ابھی بھی شک ہے کے وہ میری بات نہیں سمجھی ابھی کچھ دنوں بعد پھر اسی ہی رونی صورت بنا کے بیٹھی ہو گی، اور میں سوچتا رہ جاؤں گا کے اسے کہوں تمہیں بدلنے کی ضرورت نہیں ہے تم مجھے ایسے ہی اچھی لگتی ہو مجھے تم سے محبّت ہے شاید کبھی کہ پاؤں اس کی طرف دیکھتے یہی بات سوچ رہا تھا میں.
Similar Threads:
Bookmarks