سادیہ کے اغوا کا سن کر اُن سب کی حالت بالکل ردی ہو چکی تھی۔وہ کچھ دیر تک خالی خالی نظروں سے کائنات کو دیکھتے رہے۔کسی کے پاس کہنے کے لئے کچھ نہیں تھا۔ سب کی زبانوں کو جیسے تالا لگ گیا تھا۔آخر سلطان نے ہی سب سے پہلے زبان کھولی:۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ یہ ایک خواب ہے اور اب تھوڑی دیر بعد مجھے پانی ڈال کر اُٹھادیا جائے گا ۔ سلطان کے چہرے پر اطمینان تھا۔ ان حالات میں بھی ان کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
کاش یہ خواب ہی ہوتا لیکن افسوس !۔۔۔ یہ ایک حقیقت ہے ۔۔۔ سادیہ کو اغوا کیا جا چکا ہے ۔ عرفان نے سردآہ بھری۔
تم اتنے یقین سے کس طرح کہہ سکتے ہو ۔ سلطا ن جھلا اُٹھا۔
پتا نہیں ۔۔۔ لیکن غالب گمان یہی ہے کہ سادیہ کو اغوا کیا گیا ہے ۔ عرفان نے سوچ کر کہا۔
اب یہاں مشہور شاعر غالب کہاں سے آگیا ۔ سلطا ن نے جل کر کہا جس پر ان سب کے چہروں پر ایک بار پھر مسکراہٹیں رینگ گئیں۔
سنجیدہ ہوجاؤ بھئی ۔۔۔ ہمیں اب کچھ نہ کچھ تو کرناہی ہوگا۔۔۔ امی جان نے ہماری ذمہ داری لگائی ہے کہ ہم سادیہ کو واپس گھر لے کر آئیں اور اب ہم اس ذمہ داری کو نبھائے بغیر واپس گھر نہیں جائیں گے ۔ عدنان پر جوش لہجے میں بولا۔
ٹھیک ہے ۔۔۔کائنات اب ہم چلتے ہیں ۔۔۔ ہماری وجہ سے تمہیں تکلیف ہوئی ۔ عمران نے معذرت کرتے ہوئے کہا۔
کوئی بات نہیں ۔۔۔ میری دعا ہے کہ تم لوگ سادیہ کو لے کر ہی واپس گھر جاؤ ۔ کائنات نے اداس انداز میں کہا۔
آمین ۔ ان سب کی زبان سے ایک ساتھ نکلا۔پھر وہ کائنات کے گھر کے دروازے سے ہٹ آئے اور ایک ٹیکسی روکی ۔ ٹیکسی والے کو انہیں نے سیدھاسیدھا سڑک پر چلنے کو کہا۔ دوسرے ہی لمحے وہ ٹیکسی میں بیٹھے نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہو رہے تھے۔ یہاں کائنات نے اپنے گھر کا دروازہ بند کر لیا تھا اور وہ اپنے کمرے میں آکر ان کی کامیابی کے لئے دعائیں کر رہی تھی۔ دوسری طرف جب کافی دیر ہوگئی اور ٹیکسی والے کو کسی بھی جگہ کا پتا نہ بتایا گیا تو وہ ٹیکسی چلا چلا کر تنگ آگیا۔
آخر آپ لوگوں کو کہاں جانا ہے ۔ ٹیکسی ڈرائیور نے اکتا کر کہا۔
کسی ایسی جگہ لے جاؤ بھائی جہاں دور دور تک نہ کوئی ہنگامہ ہو نہ کوئی شور ہو۔۔۔ ہر طرف سکون کا عالم ہو ۔۔۔ بڑے سے باغ میں چھوٹے سے بستر پر ایک نرم سا تکیہ ہو اور اس پر میں خواب خرگوش کے مزے لے رہا ہوں ۔۔۔ سکون ہی سکون ہو۔۔۔ نہ کوئی شور نہ کوئی ہنگ۔۔۔۔ سلطان کے الفاظ ادھورے رہ گئے کیونکہ اسی وقت ایک کان پھاڑدینے والا دھماکا ہوا تھا۔ ان کی ٹیکسی دھماکے کی جگہ سے ابھی بہت دور تھی اس لئے ٹیکسی الٹتے الٹتے بال بال بچ گئی البتہ جس گھر میں دھماکا ہوا تھا وہ صاف طور پر نظر آرہا تھا۔شعلوں سے بھری آگ نے گھر کو ڈھانپ لیا تھا۔اس گھر کے بالکل سامنے ایک کار الٹ چکی تھی ۔ تبھی وہ سب چونک اُٹھے۔ گھر کے دروازے کی پلیٹ پر ایم اے جیسوال کانام لکھا تھا اور گھر سے کچھ دور فاصلے پر ایک شخص سرپٹ دوڑا جا رہا تھا۔ جیسے اس کی موت اس کے پیچھے لگی ہو۔بھاگنے والے شخص کے چہرے پر نظر پڑتے ہی وہ دھک سے رہ گئے ۔ بھاگنا والا شخص اُن کے والدایل ایل بی شہباز احمد کا اسسٹنٹ منظور تھا۔دوسری طرف جو گاڑی اس دھماکا کے اثر کی وجہ سے اُلٹ گئی تھی اس کے اندر جھاکنے پر ایک اور حیرت سے بھرا منظر اُن کا انتظار کر رہا تھا۔گاڑی کے اندر جیسوال زخمی حالت میں بے ہوش پڑا تھا۔حیرت ہی حیرت ان کے چہروں پر نظر آرہی تھی اور وہ زخمی حالت میں بے ہوش جیسوال کو اور آگ میں چھپے ہوئے اس کے گھرکو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔
٭٭٭٭٭
ایل ایل بی شہباز احمد اپنے دفتر میں ضروری فائلوں کا جائزہ لے رہے تھے ۔ وہ اپنے کام میں پوری طرح ڈوبے ہوئے تھے۔اُن کانام اعلیٰ پائے کے وکیلوں میں لیا جاتا تھا۔وہ آج تک ایک کیس بھی نہیں ہارے تھے۔اُن کے بچے عرفان،عمران ، عدنان ، سلطان اور سادیہ عرفان برادرز کے نام سے جانے جاتے تھے ۔ ابھی کچھ ہی مہینوں پہلے انہیں نے ایل ایل بی شہباز احمد کے دفتر میں اپنی پرائیوٹ جاسوسی کا ادارہ قائم کیا تھاالبتہ ایل ایل بی شہباز احمد پندرہ سال سے وکالت کر رہے تھے۔بے گناہوں کو بچانا اُن کا پیشہ تھا اورگناہ گاروں کو سزا دینے میں وہ بالکل بھی پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔اُن کی خاص بات یہ تھی کہ غریبوں کا کیس مفت لڑتے تھے۔اُن کے ہر کیس جیتنے کی وجہ سے ان کے نام آگے لوگ ایل ایل بی کی ڈگری بھی لگا نے لگے تھے۔ دوسری طرف ان کے برعکس جیسوال جلد بازی کا شکار رہتا تھا۔ اُس کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ پانچ منٹ کے اندر اندر کیس حل کر کے جیت جائے ۔ گزشتہ کیس کے علاوہ وہ بھی کوئی کیس نہیں ہارا تھا۔ گزشتہ کیس میں چونکہ اُس کے مقابلے پر ایل ایل بی شہباز احمد کھڑے تھے اس لئے ہارنا اس کا مقدر بن گیا تھا(جرم کی کہانی )۔ تبھی ایل ایل بی شہباز احمد نے کسی کے کھنکارنے کی آواز سنی جیسے کوئی انہیں اپنی موجود گی کا احساس دلانا چاہتے ہو۔ شہباز احمد نے نظر اوپر اٹھائیں تو ایک ڈیل ڈول والا نوجوان شخص انہیں مسکرا کر دیکھ رہا تھا۔ وہ حیران ہو کر اسے دیکھنے لگے:۔
اس قدر حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے شہباز صاحب ۔۔۔میں آپ کو کچھ نہیں کہوں گا ۔ اس شخص کے چہرے پر تمسخرانہ مسکراہٹ تھی۔
کیا چاہتے ہیں آپ مجھ سے ۔ شہباز احمد نے پرسکون لہجے میں کہا۔
آپ کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہوں ۔۔۔ اگر آپ نے کوئی گڑبڑ نہ کی تواس میں آپ کا ہی فائدہ ہے ۔۔۔ اور اگر کوئی گڑبڑ کرنے کی کوشش کی تو پھر کیا ہوگا۔۔۔ یہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں ۔ اس شخص نے نہایت سرد آواز میں کہا۔
مجھے گڑ بڑ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔ میں تیل دیکھوں گا اور تیل کی دھار دیکھوں گا ۔۔۔ البتہ اگر معاملہ مشکوک ہوا تو آپ بھی نہیں بچیں گے ۔ شہباز احمد نے بھی سخت لہجے میں کہا۔
دیکھا جائے گا ۔ ا س شخص نے لاپرواہی سے کندھے اچکائے اور شہباز احمد کو اپنے کرسی سے اُٹھنے کا اشارہ کیا۔ شہباز احمد نے ایک دو پل کے لئے سوچا کہ وہ کیا کر سکتے ہیں ؟ پھر انہوں نے فیصلہ کیا کہ معاملہ مکمل جانے بنا کوئی بھی قدم اُٹھانا غیر مناسب ہے لہٰذا انہیں نے اس شخص کے ساتھ جانے میں ہی عافیت جانی اور اپنی کرسی سے اُٹھ کھڑے ہوئے ۔دوسرے ہی لمحے ایل ایل بی شہبا ز احمد اس ڈیل ڈول والے نوجوان کے ساتھ اپنے دفتر سے باہر نکل رہے تھے ۔ باہر ایک بڑی ہائی رُف کھڑی ان کا انتظار کر رہی تھی۔ ہائی رُف میں پہلے سے ہی ایک ڈرائیور بالکل چوکس گاڑی سٹارٹ کیے بیٹھا تھا۔ انہیں نے اس قدر پختہ انتظام کے ساتھ بنایا ہوا منصوبہ زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔وہ بنا کچھ بولے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے ۔ ان کے ساتھ وہ شخص بھی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ اگلے ہی پل گاڑی ایک زبردست جھٹکے کے ساتھ چلی اور پھر کچھ ہی دیر بعد وہ فراٹے بھرتی اُڑی جارہی تھی۔رفتہ رفتہ وہ اپنے دفتر سے دور ہو رہے تھے اور ان کی بے چینی میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔تبھی اُنہیں نے ڈیل ڈول والے نوجوان کو اپنی جیب سے پرفیوم نکالتے دیکھا۔ وہ چونک اُٹھے ۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کر پاتے ۔ اس شخص نے پرفیوم کی تھوڑی سی مقدار ان کی ناک کے پاس چھڑک دی۔ دوسرے ہی لمحے میٹھی میٹھی خوشبو ان کے دماغ میں گھس گئی۔ انہیں دنیا گھومتی ہوئی محسوس ہوئی۔ چکر نے انہیں آ گھیرااور پھر تھوڑی دیر بعد وہ بے ہوشی کی وادی میں داخل ہوگئے ۔ اُن کے ساتھ بیٹھے شخص کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ گہری ہوتی جارہی تھی۔
٭٭٭٭٭
ایل ایل بی شہباز احمد کی آنکھ کھلی تووہ ایک بڑے سے ہال میں پڑے تھے ۔ ان کے چاروں طرف نیلی رنگ کی روشنی پھیلی ہوئی تھی اورپھر سامنے کا منظر دیکھ کر ان کے ہوش اُڑ گئے ۔ ان کے بالکل سامنے ایک موٹی سفید رنگ کی رسی سے سادیہ کے دونوں ہاتھ پاؤں باندھ کر اسے چھت سے الٹا لٹکایا گیا تھا۔وہ پوری طرح بے ہوش تھی۔اس کی یہ حالت دیکھ کر شہباز احمد کے چہرہ سرخ ہوگیا۔آن کی آن میں انہیں شدید غصے نے آگھیرا۔ انہیں نے پوری قوت سے اُٹھ کر بیٹھنا چاہا لیکن وہ اپنی جسم کو ہلکی سی حرکت بھی نہ دے سکے۔انہیں نے ایک بارپھر سادیہ کی رسی کھولنے کے لئے خود کو حرکت دینے کی کوشش کی لیکن اس بار بھی نتیجہ صفر ہی نکلا۔کافی دیر تک وہ برابر خود کو حرکت دینے کی کوشش کرتے رہے لیکن وہ اپنے جسم کو ہلکی سے حرکت بھی نہ دے سکے۔ آخر وہ بے بسی سے اپنی بیٹی سادیہ کو بے ہوشی کی حالت میں رسی سے اُلٹا لٹکا ہوا دیکھنے لگے۔تبھی کسی کی بھاری آواز نے انہیں چونکنے پر مجبور کر دیا۔
کیسے ہیں شہباز صاحب۔ یہ آواز اُنہیں ہال کے چاروں طرف سے آتی محسوس ہوئی۔ وہ حیران ہو کر ادھر اُدھر دیکھنے لگے۔
آپ کو اس وقت حیران ہونے کی نہیں پریشان ہونے کی ضرورت ہے ۔۔۔اپنی بیٹی کی حالت تو آپ دیکھ ہی سکتے ہیں ۔ آواز کا لہجہ مذاق اُڑانے والا تھا۔
میری بیٹی کو چھوڑ دو ورنہ میں تمہارا وہ حال کروں گا کہ تمہاری روح تک کانپ اُٹھے گی ۔ شہباز احمد غرائے۔
یہ دھمکیاں اپنے پاس ہی رکھیں ۔۔۔ اسی میں آپ کی بھلائی ہے ۔۔۔ اگر اپنی بیٹی کوچھڑانے کی ہمت ہے تو اُٹھ کر کھول دیجئے اس کی رسیاں ۔ آواز نے انہیں اکسایا۔ایل ایل بی شہباز احمد نے ایک بار پھر پوری کوشش کی کہ وہ اُٹھ کر کھڑ ے ہوجائیں لیکن اس بار بھی وہ اپنے جسم کو ہلکی سی حرکت بھی نہ دے سکے۔ شاید ان کے نصیب میں آج شکست ہی لکھی ہوئی تھی۔
میں سمجھ گیا۔۔۔ یہ جو نیلی روشنی یہاں پھیلی ہوئی ہے اس نے میرے جسم سے حرکت کرنے کی صلاحیت چھین لی ہے ۔۔۔ آخر تم مجھ سے کیا چاہتے ہو ۔۔۔صاف صاف بتاؤ ۔ شہباز احمد جھلا کر بولے۔
اب آپ سیدھی لائن پر آئیں ہیں۔۔۔توسنئے ۔۔۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمارے لئے ایک کیس لڑیں ۔ یہاں تک کہہ کر آواز خاموش ہوگئی۔
کیسا کیس ۔ شہبازاحمد الجھن کے عالم میں بولے۔
اب تک آپ نے کئی بے گناہوں کا کیس لڑ کر انہیں رہائی دلائی ہے ۔۔۔ اب آپ کوعدالت میں ایک بے گناہ کا نہیں بلکہ ایک گناہ گار مجرم کا کیس لڑنا ہے ۔۔۔ اور امید ہے کہ اس بار بھی جیت آپ کو ہی نصیب ہوگی۔۔۔ یہ کیس آپ ہمارے لئے بلکہ نہیں!۔۔۔ یہ کیس تو آپ اپنی بیٹی کی زندگی کے لئے لڑیں گے ۔ اُس آواز کے لہجے میں ہنسی تھی۔
میں ایسا کچھ نہیں کروں گا ۔ ایل ایل بی شہباز احمد سخت لہجے میں بولے۔
تو پھرآج رات اپنی بیٹی کے جناز ے میں شریک ہونے کے لئے تیار ہوجائیے ۔ اس آواز کا لہجہ انتہائی سرد تھا۔ شہباز احمد کانپ کر رہ گئے۔اس وقت وہ اپنے آپ کو بالکل بے بس محسوس کر رہے تھے۔آج تک انہیں نے کبھی بھی کسی گناہ گار کا کیس نہیں لیا تھا۔ اپنے اصولوں پر و ہ کبھی بھی آنچ نہیں آنے دیتے تھے ۔ لیکن آج ایک طرف اُن کے فرائض اور اصول تھے تو دوسری طرف ان کی بیٹی۔ اس سے زیادہ بے بس وہ زندگی میں پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے۔
٭٭٭٭٭
باقی آئندہ
٭٭٭٭٭
Bookmarks