یہ واقعہ مجھے میری والدہ نے بتایا۔ جنوری کا وسط تھا۔ زینب والا واقعہ تازہ تازہ میڈیا کی زینت بنا تھا اور قاتل کی تلاش جاری تھی۔ پورے ملک میں بے چینی تھی اور ہر طبقہ ہائے فکر کے لوگ اپنے اپنے طریقے سے اس واقعے پر آواز اٹھا رہے تھے۔ کچھ معاشرے میں موجود گھٹن پر بات کررہے تھے۔ کچھ انسانی شکلوں میں گھومنے والے درندوں کو موضوع بنا رہے تھے۔ کچھ زینب کے واقعے پر اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہے تھے۔ بچوں کی حفاظت اور تربیت کی باتیں ہو رہی تھیں۔ جنسی تعلیم اور گڈ ٹچ، بیڈ ٹچ کو نصاب کا حصہ بنانے پر غور ہو رہا تھا۔ بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی تھیں۔
ایسے میں یہ واقعہ میرے سامنے آیا اور مجھے احساس ہوا کہ دراصل تربیت کی ضرورت بچوں سے زیادہ والدین کو ہے۔ والدین جب تک اپنے بچوں کی حفاظت کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوں گے دنیا کی کوئی طاقت ان کے بچوں کی حفاظت نہیں کر سکتی۔ ہم لوگ اسلام آباد کی ایک مضافاتی آبادی میں کرائے پر رہتے ہیں۔ ہمارے مکان کے نچلے حصے میں بھی کرائے دار رہتے ہیں۔ ان کے چار بیٹے ہیں اور سب سے چھوٹے بیٹے کی عمر ابھی بمشکل دو سال کی ہو گی۔ میری والدہ ایک دن بالکونی میں کھڑی باہر کا نظارہ کر رہی تھیں۔ ان بچوں کی والدہ بھی گھر کے گیٹ کے باہر صفائی میں مصروف تھی اور اس کا سب سے چھوٹا بچہ باہر گلی میں کھیل رہا تھا۔
اتنے میں میری والدہ کی نظر گلی میں داخل ہونے والے ایک خوش پوش مگر اجنبی نوجوان آدمی پر پڑی۔ پتلون اور قمیص میں ملبوس وہ شخص ہاتھ میں ایک شاپر تھامے ہوئے آہستہ آہستہ گلی میں چل رہا تھا۔ اس کے چہرے پر ایک دوستانہ مسکراہٹ بکھری ہوئی تھی۔ وہ غیر محسوس طور پر گھروں کا جائزہ لیتا ہوا ہمارے گھر ہی کی جانب چلا آ رہا تھا۔ آدھی گلی تک پہنچ کر وہ تھوڑی دیر کو رکا اور شاپر میں ہاتھ ڈال کر کچھ ٹٹولتا رہا۔ ساتھ ہی ساتھ اس کی نظریں اس چھوٹے بچے پر جمی ہوئی تھیں جو گلی میں گھر کے باہر کھیل رہا تھا۔ اس کی ماں گردوپیش سے بے پرواہ گیٹ کے باہر پانی ڈال کر وائپر سے صفائی میں مشغول تھی۔ میری والدہ بالکونی سے بغور یہ منظر دیکھ رہی تھیں۔
اس نوجوان نے آگے بڑھنا شروع کیا اور ساتھ ہی شاپر میں سے ایک چاکلیٹ نکال کر ہاتھ میں تھام لیا۔ اس نظریں مسلسل اس بچے پر جمی ہوئی تھیں۔ بچہ ابھی تک اس سے بے پرواہ اپنے گھیل میں مگن تھا۔ کچھ ہی دیر میں وہ نوجوان بالکل ہمارے گھر کے قریب پہنچ چکا تھا۔ اس نے مسکرا کر بچے کو پکارا۔ بچے نے کھیلنا روک کر اس نوجوان کو دیکھا۔ نوجوان کے ہاتھ میں چاکلیٹ تھا اور وہ بچے کو چاکلیٹ دکھا کر اپنے پاس بلا رہا تھا۔ بچہ کشمکش میں پڑ گیا۔ اتنی دیر میں بچے کی ماں بھی اس طرف متوجہ ہو چکی تھی اور مسکرا مسکرا کر اپنے بیٹے کو دیکھ رہی تھی۔
چھوٹے بچوں کو اچھے برے کی تمیز نہیں ہوتی۔ وہ معصوم ہوتے ہیں۔ وہ بچہ بھی چاکلیٹ لینا چاہ رہا تھا۔ اور پھر وہ رہ نہ سکا اور نوجوان کی طرف دوڑتا چلا گیا۔ میری والدہ بتاتی ہیں کہ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئیں کہ بچے کی ماں نے بچے کو روکنے کی ذرا سی بھی کوشش نہیں کی بلکہ الٹا حوصلہ افزائی والے انداز میں بچے کو دیکھتی رہی۔ چاکلیٹ لے کر بچہ واپس اپنی ماں کے پاس آ گیا اور ماں اپنے بچے کو لے کر واپس گھر کے اندر آ گئی۔ میری والدہ فوراً نیچے اس کے گھر گئیں اور جا کر دریافت کیا کہ آیا وہ نوجوان ان کا کوئی واقف تھا۔ جواب پریشان کن تھا۔ وہ نوجوان بالکل اجنبی تھا۔ میری والدہ نے استفسار کیا کہ پھر اس نے اپنے بچے کو روکا کیوں نہیں۔ تو اس اللہ کی بندی نے جواب دیا کہ وہ سامنے ہی تھی اور خود دیکھ رہی تھی۔ تب میری والدہ نے سوال کیا کہ اگر کسی وقت وہ باہر نا ہوئی اور اس کا بچہ باہر نکل گیا۔ باہر وہ نوجوان موجود ہوا اور چاکلیٹ کی وجہ سے بچہ اس سے مانوس ہو کر اس کے ساتھ چل پڑا تب؟ اس خاتون کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔
شام کو میں گھر لوٹا تو والدہ نے یہ واقعہ انتہائی پریشانی کے عالم میں میرے گوش گذار کیا۔ میں بھی یہ سن کر حیران اور پریشان ہوا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ رات کو جب بچے کا والد اپنے کام سے واپس لوٹے گا تو اس سلسلے میں اس سے بات کروں گا۔ ایسا ہی ہوا۔ رات کو میں نے اس بچے کے والد کو جا پکڑا اور یہ واقعہ اس کے سامنے رکھا۔ یہ واقعہ سن کر اس نے ہنسنا شروع کر دیا اور ایسا جواب دیا کہ میں اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ اس نے بتایا کہ سامنے والے پلاٹ پر جو گھر بن رہا ہے اس پر کام کرنے والے مزدوروں کو اس نے اپنے بچوں پر نظر رکھنے کا کہا ہوا ہے۔ میں نے دریافت کیا کہ کیا وہ مزدور اس کے ذاتی طور پر واقف ہیں۔ کہتا ہے کہ نہیں واقف تو نہیں ہیں مگر وہ روز وہاں کام کرنے آتے ہیں تو وہ بچوں پر نظر رکھ سکتے ہیں۔
میں اس بندے کا منہ دیکھتا رہ گیا جو بِلوں کو دودھ کی رکھوالی سونپ کر بے فکر ہوا بیٹھا تھا۔

بشکریہ اویس احمد