یہ پاکستان سپر لیگ کا پہلا سیزن ہے۔ زندہ دلانِ لاہور نے آسمان اور قلندرز کو سر پر اٹھا رکھا ہے لیکن ہوا کیا؟ انہوں نے 8 میں سے صرف 2 میچز جیتے اور ٹورنامنٹ سے باہر ہوگئے۔ چلیں، ایک بار ہو گیا۔
٢٠١٧ء میں متحدہ عرب امارات کے میدان پھر سجے اور فائنل لاہورمیں کروانے کا اعلان ہوا تو لاہوریوں کو پوری امید تھی کہ اس بار قذافی اسٹیڈیم میں ٹائٹل کے لیے لڑنے والی ایک ٹیم انہی کی ہوگی لیکن کپتان بدلا، کھلاڑی بدلے مگر نتائج نہ بدل سکے۔ اس بار 8 میچز میں صرف 3 کامیابیاں نصیب ہوئیں اور ٹیم ایک مرتبہ پھر آخری نمبر پر آئی۔
اب تیسرا سیزن شروع ہو چکا ہے اور پہلے دونوں میچز میں جو کچھ دیکھنے کو ملا ہے، اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر قلندرز کے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اور یہ ملین بلکہ بلین ڈالرز کا سوال ہے۔
مسلسل 2 سال ناکامی کا منہ دیکھنے کے بعد لاہور قلندرز نے اپنے ایک سابق کپتان اظہر علی کو نکالا، سہیل تنویر جیسے باؤلر کی چھٹی کرائی، گرانٹ ایلیٹ کو ریلیز کیا، یہاں تک کہ ڈیوین براوو کو بھی باہر کا راستہ دکھا دیا اور ایک ایسی ٹیم منتخب کی جو ہمیشہ کی طرح کاغذ پر بہت مضبوط دکھائی دے رہی ہے۔ کپتان برینڈن میک کولم، اوپننگ میں فخر زمان، مڈل آرڈر میں عمر اکمل، باؤلنگ میں مستفیض الرحمٰن، یاسر شاہ، مچل میک کلیناگھن، سنیل نرائن اور سہیل خان لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات
پہلے سیزن میں 59 رنز پر آل آؤٹ ہونے کا کارنامہ انجام دینے والے قلندروں نے اس بار تو آغاز ہی میں انتہا کردی۔ پہلے ہی مقابلے میں صرف 4 رنز پر 7 وکٹیں گنوانے کا اعزاز حاصل کیا۔ دوسرے مقابلے میں بھی کم و بیش کچھ ایسا ہی "کارنامہ" انجام دیا کہ جہاں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے خلاف 8 اوورز میں لگ بھگ 80 رنز بنائے لیکن باقی 12 اوورز میں صرف 39۔
آپ اب تک ہونے والے لاہورکے دونوں میچز کی جھلکیاں ایک مرتبہ پھر دیکھیں، آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ لاہور کے ساتھ مسئلہ کیاہے؟ دیکھیے اس سیزن میں ان کا پہلا مقابلہ، 180 رنز کے تعاقب میں پہلے 12 اوورز میں 100 رنز بن چکے ہیں اور صرف 2 وکٹیں گری ہیں۔ ایک سنسنی خیز مقابلے کے لیے میدان تیار ہے، لیکن ہوا کیا؟ پوری ٹیم 136 رنز پر آل آؤٹ ہوگئی، اس میں بھی آخری 7 وکٹیں صرف 4 رنز کے اضافے سے گریں۔
محمد نواز مین آف دی میچ قرار پائے۔
کچھ یہی کہانی ہمیں دوسرے مقابلے میں بھی نظر آئی۔ ایک طوفانی آغاز، پانچویں اوور میں اسکور 60 رنز کو چھو رہا ہے، وہ بھی صرف ایک وکٹ پر، پھر باقی کے 15 اوورز میں بنتے ہیں صرف 59 رنز، اور گرتی ہیں 8 وکٹیں۔ باؤلنگ کا جو حال دونوں مقابلوں میں ہوا، اس کا تو ذکر ہی کیا کریں کہ رنز ہی سب کچھ بتا رہے ہیں۔ پہلے میچ میں 179 رنز کھائے اور دوسرے میں صرف 14 اوورز میں ایک وکٹ لے کر 120 رنز۔
یہ کارکردگی بے وجہ نہیں ہے، دراصل کاغذ پر مضبوط نظر آنے والی لاہور قلندرز کی ٹیم کے چند مسائل ہیں جو ہمیشہ میدان میں ہی نظر آتے ہیں۔ سب سے پہلے تو بیٹنگ لائن دیکھیں، سارے ہی بیٹسمین ایک ہی مزاج کے ہیں۔ اوپر سے شروع کیجیے، فخر زمان، برینڈن میک کولم، کیمرون ڈیلپورٹ، سہیل اختر اور عمراکمل۔ یعنی ٹِک کر کھیلنے والا، حالات کے مزاج کے مطابق ڈھلنے والا، اننگز کو تسلسل کے ساتھ آگے بڑھانے والا کوئی نہیں۔ سب وہی ہیں، جنہیں کھیلنے کا ایک ہی انداز آتا ہے کہ بس ہر گیند پر چھکے مارنے ہیں۔
جب تک پاور پلے رہتا ہے، چوکے چھکے ملتے رہتے ہیں لیکن جیسے ہی فیلڈرز باہر نکلے، وکٹیں گرتی چلی جاتی ہیں۔ کوئٹہ کے خلاف میچ میں دیکھیں کہ سنیل نرائن ایک اوور میں 24 رنز لوٹ چکے ہیں، لیکن مزید کے 'لالچ' میں وکٹ دے جاتے ہیں۔ میک کولم نے ابھی 2 چھکے مارے ہیں، لیکن دوگیندوں بعد فخر زمان ایک اور کے چکر میں آؤٹ ہو جاتے ہیں۔ پے در پے 2 وکٹیں گرنے کے بعد سنبھلے ہی نہیں تھے کہ محمد نواز کی ایک عمدہ گیند نے کپتان میک کولم کی اننگز کا خاتمہ بھی کردیا۔
تب سنبھل کر کھیلنا چاہیے تھا کیونکہ پاور پلے بھی ختم ہو چکا لیکن 2 چھکے بھی کیمرون ڈیلپورٹ کی بھوک، یا عادت، ختم نہیں کر پاتے اور وہ عین باؤنڈری لائن پر انور علی کو کیچ دے گئے۔
عمراکمل ان سب کے مقابلے میں کچھ بہتر بلے باز کہے جا سکتے ہیں کہ وہ جم جائیں تو اننگز کو آخر تک لے جا سکتے ہیں لیکن وہ واضح ایل بی ڈبلیو پر ریویو ضائع کر گئے اور اس کے ساتھ ہی بیٹنگ ہوگئی تمام۔ نتیجہ یہ کہ باقی کی 69 گیندوں پر بنتے ہیں صرف 39 رنز اور یوں 10 رنز فی اوو ر کے اوسط سے شروع ہونے والی اننگز تمام ہوتی ہے صرف 119 رنز پر۔
آپ لاہور قلندرز کے علاوہ پاکستان سپر لیگ کی ہر ٹیم دیکھ لیں، ان کی بیٹنگ لائن میں ایک، 2 بیٹسمین ایسے ضرور ہیں جو کسی بھی ایسی صورت حال سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کوئٹہ کے پاس اسد شفیق ہیں، اسلام آباد کے پاس مصباح الحق اور جے پی ڈومنی، کراچی کے پاس لینڈل سیمنز، ملتان کے پاس شعیب ملک اور پشاور زلمی کے پاس محمد حفیظ۔ لاہور کے پاس کون ہے؟ کوئی نہیں! یقین جانیں، جس کرس لِن کے زخمی ہونے پر آٹھ، آٹھ آنسو بہائے جا رہے ہیں، ان جیسے 2 بھی ہوتے تو بھی لاہور کو شکست ہی کھانی تھی کیونکہ ٹیم کے مزاج میں اس سے کوئی تبدیلی نہیں آنی تھی۔
بیٹنگ کے علاوہ بھی اسکواڈ کے انتخاب میں کچھ بنیادی خامیاں موجود ہیں جیسا کہ وکٹ کیپر کا معاملہ دیکھ لیں۔ برینڈن میک کولم عرصے سے خود کیپنگ نہیں کرتے اس لیے وہ تو وکٹوں کے پیچھے نہیں جائیں گے۔ عمر اکمل کو یہ ذمہ داری سونپنے کا تجربہ پہلے ہی مقابلے میں ناکام ہوا جہاں ان کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے ملتان کو مفت میں بائے کے کئی رنز ملے۔ دوسرے میچ میں ان کی جگہ گلریز صدف کو دی گئی جو بیٹنگ میں مارے گئے۔ جب ضرورت پڑی تو انہوں نے صرف 13 رنز بنائے اور وہ بھی 31 گیندوں پر۔
باؤلنگ میں کمال دیکھیں سنیل نرائن اور یاسر شاہ کے ہوتے ہوئے رضا حسن کی صورت میں تیسرا اسپنر بھی کھلا لیا گیا جبکہ 2 فاسٹ باؤلرز بھی ٹیم میں موجود تھے یعنی لاہور پورے 5 باؤلرز کے ساتھ میدان میں اُترا۔ جس ٹیم میں اچھے بلّے بازوں کی کمی ہو، وہ 5 باؤلرز کے ساتھ کھیلے تو نتیجہ یہی نکلتا ہے۔
بہرحال، لاہور قلندرز کو ضرورت ہے ایک اچھی انتظامیہ کی، جوکھلاڑیوں کے انتخاب میں بھی درست رہنمائی کرے اور میدان میں اتارنے کے لیے بھی ایک متوازن دستہ تشکیل دے۔ کچھ یہی صلاح کراچی کنگز کے لیے بھی ہے جو پہلے 2 سال انہی غلطیوں کی نذر کر چکا ہے۔
وکٹ کیپنگ میں دنیش رامدین کو آزمایا جا سکتا ہے جو اچھے بیٹسمین بھی ہیں۔ اگر سہیل خان زخمی نہیں ہیں تو اُنہیں مستفیض الرحمٰن کے ساتھ میدان میں اُتارا جائے اور عامر یامین کی جگہ انتون ڈیوکچ کو کھلایا جا سکتا ہے۔ مختصر یہ کہ جو پہلو کمزورہیں، ان کا خلاء پر کرنے کی کوشش کی جائے۔
بلاشبہ نوجوان ٹیلنٹ کی تلاش کے لیے لاہور قلندرز جیسی خدمات کسی دوسری فرنچائز کی نہیں، لیکن ان کا اصل کام پاکستان سپر لیگ میں کامیابیاں حاصل کرنا ہے اور پہلی توجہ ہمیشہ اسی پر ہونی چاہیے۔ جیت کے لیے ایک متوازن ٹیم بہت ضروری ہے جس میں بیٹسمین اور باؤلرزکا عمدہ کمبی نیشن ہو۔
غلطیاں سب سے ہوتی ہیں، ہار جیت کھیل کا حصہ ہے لیکن ضرورت ہے غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنے کی اور انہیں دوبارہ نہ دہرانے کی۔ ابھی بھی ہاتھ سے کچھ نہیں گیا، بہت سارے مقابلے ابھی باقی ہیں۔ جو دستیاب وسائل ہیں انہیں بہتر طریقے سے استعمال کیا جائے، ذمہ داری کا احساس دلایا جائے اور جس حد تک ممکن ہو نسبتاً متوازن ٹیم میدان میں اتاری جائے تو بعید نہیں کہ لاہور اہم کامیابیاں حاصل کرے۔