ویسے تو کج ادائی کا دُکھ کب نہیں سہا
آج اُس کی بے رُخی نے مگر دل دُکھا دیا
موسم مزاج تھا ، نہ زمانہ سرشت تھا
میں اب بھی سوچتی ہوں وہ کیسے بدل گیا
دُکھ سب کے مشترک تھے مگر حوصلے جُدا
کوئی بِکھر گیا تو کوئی مُسکرا دِیا
ایسے بھی زخم تھے کہ چھپاتے پھرے ہیں ہم
درپیش تھا کسی کے کرم کا معاملہ
آلودۂ سخن بھی نہ ہونے دیا اُسے
ایسا بھی دُکھ ملا جو کسی سے نہیں کہا
تیرا خیال کر کے میں خاموش ہو گئی
ورنہ زبانِ خلق سے کیا کیا نہیں سُنا
میں جانتی ہوں ، میری بھلائی اسی میں تھی
لیکن یہ فیصلہ بھی کچھ اچھّا نہیں ہُوا
میں برگ بر گ اُس کو نمو بخشتی رہی
وہ شاخ شاخ میری جڑیں کاٹتا رہا
Similar Threads:
Bookmarks