تشنگی آنکھوں میں اور دریا خیالوں میں رہے
ہم نوا گر، خوش رہے جیسے بھی حالوں میں رہےدیکھنا اے رہ نوردِ شوق! کوئے یار تک
کچھ نہ کچھ رنگِ حنا پاؤں کے چھالوں میں رہےہم سے کیوں مانگے حسابِ جاں کوئی جب عمر بھرکون ہیں، کیا ہیں، کہاں ہیں؟ ان سوالوں میں رہےبدظنی ایسی کہ غیروں کی وفا بھی کھوٹ تھیسوئے ظن ایسا کہ ہم اپنوں کی چالوں میں رہےایک دنیا کو میری دیوانگی خوش آ گئییار مکتب کی کتابوں کے حوالوں میں رہےعشق میں دنیا گنوائی ہے نہ جاں دی ہے فرازپھر بھی ہم اہلِ محبت کی مثالوں میں رہےاحمد فراز
Bookmarks