بیگم سلمیٰ تصدق حسین وہ میٹنگ، شاعری اور کھانا پینا بھی برآمدے میں ہی کرتی تھیں
ڈاکٹر ایم اے صوفی
تحریک پاکستان میں ایک وقت ایسا تھا کہ ان کا شمار مسلمانوں کے قومی افق پر ہوتا تھا۔ کیونکہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کی تاریخ کا دھارا موڑنے میں صف اول کی خاتون تھیں۔ اور آزادی کے تحفے سے فیض یاب ہوئیں لاہور ہو یا پشاور ہو، خواتین کی صف اول کی لیڈر تھیں۔ قائداعظمؒ کی قابل اعتماد اور سچی رفیق کار تھیں۔وہ ایسی پرجوش مقررہ اور شاعرہ تھیں کہ اپنے جذبہ حریت سے شعلہ آزادی کو کئی برس تک فروزاں رکھا۔ان کو پکڑ دھکڑ، قیدوبند سے کوئی ڈر ا نہ تھا۔ یونین جیک جھنڈا اتارتے وقت انہوں نے انگریز کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ سیکرٹریٹ کی عمارات کے اندر سوئیں اور پاکستانی جھنڈا لہرانے میں فاطمہ بی بی کے ساتھ وہ بھی آگے آگے تھیں۔ ان کی شاعری مزاج کے اندر تبدیلی لانے والی ہوتی تھی۔ اتنی بڑی قلمکار شاعرہ ہونے کے باوجود وہ انتہائی خلیق خاتون تھیں۔ شگفتہ طبیعت کی مالکہ تھیں وہ عوام میں بہت جلد گھل مل جاتی تھیں۔ وہ ایک مقتدر علمی گھرانے کی خاتون تھیں۔ ان کے شوہر نامدار ڈاکٹر تصدق حسین مشہور قانون دان ہونے کے علاوہ شاعر بھی تھے۔ بیگم صاحبہ نے سیاست کو عبادت بنا رکھا تھا۔ ان کے گلشن کو خدا نے ایک پھول، پھول واحد سے نوازا جس کا نام اسلم ریاض رکھا۔ خدا نے اس کو بھی قانونی شعور اور فہم سے نوازا کہ مقام عرفان و شہرت میسرآئی۔ وکالت کے مدارج سے ایک محرک جج بنے اور گورنر ہوئے اور ان کا ملک کے اعلیٰ ہنرمند اور باشعور ججوں میں شمار ہوا۔ 1953ء کا زمانہ تھا کہ بیگم سلمیٰ تصدق حسین کو مسلم لیگ کا ٹکٹ لاہور شہر کی سیٹ کا میسر آیا۔ ان کے مقابلے میں باجی رشیدہ کی بیٹی محمونہ تھیں۔ جو اندرونی لاہور کی مشہور لیڈر تھیں۔ ہم بھی اس ٹیم میں بیگم صاحبہ کی الیکشن مہم میں شامل تھے۔ مسلم لیگ کی ایک سبز رنگ کی جیپ تھی۔ جب ہم اپنی مہم پر نکلتے تو اکثر وہ خراب ہو جاتی۔خیرالیکشن ہم جیت گئے۔ بیگم صاحبہ اسمبلی کی ممبر بن گئیں۔ ان ہی دنوں اسلم ریاض کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔سیاسی اور سماجی کام کبھی نہیں چھوڑا۔ اور نہ ہی گھر کے برآمدے کی رفاقت چھوڑی۔ خدا جانے برآمدے سے اتنی محبت کیوں رکھتی تھیں کہ ہم نے کبھی صوفہ پر ان کو بیٹھتے نہیں دیکھا۔ صوفوں پر سفید رنگ کے کور دیکھے۔ برآمدہ میں فون، برآمدہ میں میٹنگ۔ برآمدہ میں شاعری اور کھانا بھی اکثر سونا بھی وہیں۔ آخر وقت تک ہی برآمدہ ساتھی تھا۔ برتن سادہ، خوراک سادہ، گھر سادہ، لباس سادہ، رفتار، گفتار عمدہ، خلق عظیم تھا۔کہیں جلسہ ہو وہ وہاں صدارت کررہی ہوتی تھیں۔ ایک انگلی دانت پر ہے ایک ہاتھ درد والی جگہ یعنی معدہ پر ہے مگر کیا مجال کہ وہ آرام کریں۔ ایک طرف رشتے ناطے کرا رہی ہوتی تھیں تو دوسری طرف طلباء کو شاباش دے رہی ہوتی تھیں۔ تیسری طرف بازیافتہ عورتوں کی کمیٹی میں کردار ادا کررہی ہیں۔ وہتحریک پاکستان کی ایسی داستانیں سناتیں کہ انسان پر خوف طاری ہو جاتا کہ کس طرح ہندو اور سکھوں نے ہماری خواتین پر تشدد کیا۔بیگم سلمیٰ تصدق حسین پرانی مسلم لیگی ہونے کے باوجود ایوب خان کے ساتھ ہوگئیں اور ڈپٹی وزیر بن گئی تھیں۔بیگم صاحبہ سیلاب میں سماجی کام کرتی رہتیں اور دیگر شعبوں میں بھی۔ ایک ڈسپنسری بنائی، مسجد بنائی، تعلیمی ادارے تشکیل دیئے۔وہ7 اگست 1995ء وہ انتقال کر گئیں۔ ٭٭٭٭
Bookmarks