پاکستان کی کپتانی


میرے ذہن میں کبھی یہ خیال بھی نہیں آیا کہ مجھے کپتان بننے کو کہا جائے گا نہ ہی مجھے ایسی کوئی خواہش تھی۔ مختلف الانواع خواہشات نے بہرحال میری زندگی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ شروع میں تو میری یہی خواہش تھی کہ مجھے بیٹس مین یا بائولر کی حیثیت سے پاکستان کے لیے منتخب کر لیا جائے اور پھر جب میں آل رائونڈر کی حیثیت سے ترقی کے زینوں پر چڑھنے لگا تو میری خواہش تھی کہ مجھے پاکستان کا بہترین آل رائونڈر تسلیم کر لیا جائے۔ میری آخری منزل غالباً یہی تھی کہ لوگ مجھے دنیا کا بہترین آل رائونڈر مان لیں۔ کپتان بننے کا خیال مجھے کبھی کوئی خاص دلچسپ معلوم نہیں ہوا۔ میرے خیال میں ایسا کبھی ہو ہی نہیں سکتا تھا کیونکہ کچھ وجوہات کی بنا پر تیز بائولروں کو عام طور پر اس ذمہ داری کا اہل نہیں سمجھا جاتا۔ جب میں نے اپنے دوستوں سے کپتانی کے بارے میں گفتگو کی تو میں خاصا بددل ہوئے۔ میرے قریبی دوست افتخار احمد نے جو کئی سالوں سے پاکستان کرکٹ کی کمنٹری میں ایک جانا پہچانا نام ہے مجھے یہ ذمہ داری قبول کرنے سے باز رہنے کو کہا۔ اس کے خیال میں کپتانی کے اضافی بوجھ کی وجہ سے آل رائونڈر کی حیثیت سے میری کارکردگی متاثر ہونے کا احتمال تھا۔ اس نے مجھے اس ضمن میں ایان بوتھم کی مثال دی۔ گزشتہ برس ہی کے دوران اسے انگلینڈ کی کپتانی سے مشکل اور تباہ کن دور سے گزرنے کے بعد ہٹا دیا گیا تھا۔ ہو سکتا ہے یہ محض اتفاق ہو مگر جونہی اس پر سے کپتانی کا بوجھ اٹھا لیا گیا بوتھم نے اپنا پرانا جادو پھر سے جگا دیا۔ تقریباً تن تنہا اس نے کم ہیوز کی آسٹریلوی ٹیم کے چھکے چھڑا دیئے دوسرے دوستوں نے مجھے پاکستانی کپتانوں کی غمناک تاریخ کا حوالہ دیا۔ یہ ایک طویل داستان الم تھی۔ تقریباً ہر کپتان کا کسی نہ کسی طرح سے برا حشر کیا گیا تھا یا تو بورڈ خود ان پر چڑھ دوڑا یا پریس کا سلوک ان سے ظالمانہ رہا۔ یہاں یہ بات جاننا ضروری ہے کہ پاکستان میں کرکٹ کے دو اہم ترین مرکزوں کراچی اور لاہور کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل ہے ہمارے پریس کے مطابق جو زیادہ تر علاقائی تعصبات کا شکار رہتا ہے یا تو پاکستانی ٹیم کا کراچی میں پیدا ہونے والا کپتان لاہور سے آنے والے لڑکوں سے برا سلوک کرتا ہے یا اگر کپتان لاہور کا ہو تو اس کا رویہ کراچی کے کھلاڑیوں کے خلاف افسوسناک ہوتا ہے ٹیم کا چنائو خواہ کیسا ہی ہو ہمارے پریس کے فریقین بحث طلب کوئی نہ کوئی نکتہ ڈھونڈ ہی نکالتے ہیں۔ یہی چیز انڈیا میں بھی ہوتی ہے جہاں طاقت کے دو اہم تریج سرچشمے بمبئی اور دہلی میں قائم ہیں اور کچھ حد تک انگلینڈ میں بھی شمال اور جنوب کو بنیاد بنا کر ایسا ہی ہوتا ہے۔ مجھے اس بات سے بھی پریشانی تھی کہ پاکستانی ٹیموں پر مکمل قابو ہمیشہ ہی سے مشکل رہا تھا کسی نہ کسی وجہ سے پاکستانی اور انڈین کھلاڑی دوسرے ملکوں کے کھلاڑیوں کے مقابلے میں کھیل کے متعلق کچھ زیادہ ہی انفرادی نظریات رکھتے ہیں۔ ٹیم میں ہمیشہ کچھ ایسے کھلاڑی ہوتے ہیں جو خود کو کپتانی کے عہدے کے لیے امیدوار بنا کر پیش کرتے رہتے ہیں اور ٹیم سپرٹ کی بربادی کا اس سے برا کوئی اور طریقہ نہیں ہو سکتا کہ اس کے موجودہ کپتان کو یہ خبر ملے کہ ٹیم ہی میں کپتانی کے بیشتر امیدوار اس کے علاوہ ہیں جب بھی ٹیم کو شکست ہوتی ہے تو ٹیم کے اندر کئی پریشر گروپ جنم لے لیتے ہیں۔ ہر ٹیم میں کوئی نہ کوئی ایسا کھلاڑی ضرور ہوتا ہے جو کسی طرح سے مطمئن نہیں ہوتا مجھے اس بات کا احساس 1971ء میں اپنے پہلے دورہ انگلینڈ کے دوران ہوا۔ لیڈز میں کھیلے گئے تیسرے ٹیسٹ میں پاکستان کے پاس جیتنے کا پورا پورا موقع تھا اور جوں جوں اختتام قریب آ رہا تھا میرے اعصاب کا تنائو بڑھتا جا رہا تھا لیکن میں یہ سن کر ششدر رہ گیا کہ دو کھلاڑی جو اس میچ میں کھیل نہیں رہے تھے یہ کہہ رہے تھے کہ ان کے کچھ ساتھی اس ٹیسٹ میں ناکام ہو جائیں تو ان کے اپنے چنائو کی راہ زیادہ ہموار ہو جائے گی انہیں شاید اس بات کی قطعاً پروا نہیں تھی کہ پاکستان کو فتح ہوتی ہے یا شکست۔ اس قسم کے رویوں سے مجھے پاکستان کے بعد کے دوروں پر بھی واسطہ پڑا۔ بظاہر کچھ ٹیمیں بقیہ ٹیموں کے مقابلے میں زیادہ متحد نظر آتی تھیں۔ مگر عام طور پر میں نے یہی محسوس کیا کہ کھلاڑیوں میں ثابت قدمی اور اتحاد کا فقدان ہے۔ ایک دو بار تو مجھے یاد ہے کہ میں نے ایسے کھلاڑیوں کو جو کپتان بننے کے خواہش مند تھے اپنی شکست پر شادمان دیکھا کیونکہ اس طرح ان کی ذاتی امیدوں میں اضافہ ہوتا تھا میں کبھی بھی اس قسم کے رویے کو پوری طرح سمجھ نہیں پایا۔ (’’عمران خان‘‘ سے اقتباس) ٭…٭…٭