ریلوے اسٹیشن
وقار ملک
ریل، ریلوے، ریل کی سیٹی اور ریلوے اسٹیشن رومانوی ادب کے عالمگیر استعارے ہیں۔خوشونت سنگھ اپنا شاہکار ناول ’’دلی‘‘ لکھ رہا ہو یا گورباچوف اپنا نمائندہ ڈراما چیری آرچرڈ، اے حمید کا افسانوی ادب ہو یا معروف امریکی شاعر جان ایشبری کی پیچیدہ موضوعات پر مبنی نظم MelodicTrains ریل اور ریل کا سفر ہر ایک تحریر میں مذکور ہے۔ ریل کی سیٹی جتنی تیکھی اور تیز کیوں نہ ہو طبعِ نازک پہ گراں نہیں گزرتی۔ کتنی عجیب سی بات ہے کہ ریل کا تعلق مشین اور شمار مشینی دور میں ہوتا ہے لیکن اس کی آواز کو چرخے، پن چکی اور بانسری کی آوازوں کی ہمنوا سمجھا جاتا ہے۔ ریل کا سفر کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو بوجھل محسوس نہیں ہوتا۔ دنیا کے تمام ممالک کی طرح ہمارے دیس میں بھی ہر اسٹیشن ایک نئی رونق، چہل پہل، کلچر اور تہذیب کو لے کر ہمارا استقبال کرتا ہے۔ منچلے ہر اسٹیشن پر نیچے اترنا اپنا فرضِ عین سمجھتے ہیں۔کوئی پیارا چہرہ دکھ جائے تو سونے پہ سہاگا ورنہ سرکاری نلکے سے پانی پینے کیلئے ہی نیچے اترنے کا جواز ڈھونڈ لیتے ہیں۔ہر اسٹیشن اپنی مخصوص کھانے پینے کی چیزوں کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔ جب میانوالی سے راولپنڈی ریل کار چلا کرتی تھی تو جنڈ کے پکوڑوں کا بے تابی سے انتظار کیا جاتا تھا۔ یہ پکوڑے زیادہ تر بینگن کے بنائے جاتے تھے۔ بینگن کسی کو پسند ہوں نہ ہوں بینگن کے پکوڑوں سے کوئی انکار نہ کر پاتا۔ واپسی پر جنڈسٹیشن پر دال بکا کرتی تھی جو مٹی کی Disposable چھوٹی چھوٹی پلیٹوںمیں دی جاتی۔ یہ پلیٹیں کھانا کھانے کے بعد میں دائیں کھڑکی میں سے اس وقت باہر پھینکتا جب دورگیس فیلڈکی آگ جلتی ہوئی دکھائی دیتی تھی۔ کسی زمانے میں میانوالی سے لاہور ماڑی انڈس ٹرین جو دنیا کی شاید سست رفتارترین گاڑی تھی چلا کرتی تھی۔ مغرب کے وقت گاڑی کندیاں کے اسٹیشن پر پہنچتی تو گرم چائے اور بڑے بڑے پکوڑے فروخت کرنے والے ریڑھی والوں کی آوازیں بلند ہونا شروع ہو جاتیں۔ کندیاں سے عشاء کے وقت جب گاڑی لاہور کی طرف روانہ ہوتی تو اندھیروں کا سفر شروع ہو جاتا۔ رات11 بجے سرگودھا کا پرشور ریلوے اسٹیشن جاگ رہا ہوتا۔ پلیٹ فارم نمبر 2پر ایک بوڑھا جس کو مقامی لوگ چاچا ریڈیو کہا کرتے تھے اپنی مسلسل اور دھیمی آواز میں پھلوں کی صدا لگاتا رہتا۔ سحری کے وقت ٹرین فیصل آباد پہنچتی تو ناشتہ کرتے ہاتھوں میں ٹرے اٹھائے کینٹینوں کے چھوٹے بڑے نمائندے گاڑی میں سوار ہو جاتے اور گہری نیند سوئے ہوئے مسافروں کو اپنی کرخت آوازوںسے بیدار کر دیا کرتے۔ راستے میں شاہدرہ باغ کے پکوڑے بھی منفرد ذائقے کے حامل ہوا کرتے۔ ٹرین صبح8 یا 9 بجے لاہور پہنچا کرتی۔ لاہور ریلوے اسٹیشن پر قلیوں کی بھاگ دوڑ لاہور کی تیز زندگی کا پتہ دیتی۔ کئی گاڑیاں کراچی، راولپنڈی اور پشاور کیلئے تیار کھڑ ی دکھائی دیتیں۔ پلیٹ فارم نمبر1 پر سرکاری کینٹین کا خوابیدہ ماحول آج بھی یادوں میں زندہ اور بیدار ہے۔ سٹیشن سے باہر تانگے، رکشے، بسیں اور ویگنیں ادھر سے اُدھر بھاگتے ہوئے دکھائی دیتے۔
Bookmarks