آنے والی نسلوں کا احساس
غلام سرور
ننھی مُنّی چڑیا دانا دنکہ کی تلاش میں یہاں سے وہاں اڑتے پھرتے سارا دن گزار دیتی ہے اور رات کو کسی درخت کی شاخ پر یا کسی دیوار کے روزن میں آرام کرتی ہے۔ جب تک اکیلی جان ہے وہ اس دربدری اور بے گھری میں مگن رہتی ہے۔ مگر جیسے ہی اس کی اگلی نسل کے دنیا میں آنے کا وقت قریب آتا ہے وہ تنکا تنکا جوڑ کر گھونسلا بنانا شروع کر دیتی ہے۔ اپنے اس آشیانے کو وہ اتنا آرام دہ بناتی ہے جو اس کے نرم و نازک بچوں کے لیے ضروری ہوتا ہے اگلی نسل پیدا کر کے وہ اس کی خوراک کا پورا پورا خیال رکھتی ہے۔ اپنی چونچ میں دانا دنکا لا کر ان کی چونچ میں ڈالتی ہے اور ادھر سے ادھر تڑپتی پھرتی ہے اگلی نسل سے محبت اور اس کا خیال اس کی فطرت میں داخل ہے۔ درخت اور پودے بظاہر دیکھنے میں خاموش اور جامد ہوتے ہیں مگر اگلی نسل کی محبت اور اس کی حفاظت کے معاملہ میں چڑیا اور دیگر پرندوں سے کسی طور پر بھی پیچھے نہیں رہتے ان میں سے کتنے ہی ایسے ہیں جو کانٹوں سے لیس رہتے ہیں اور اپنے پھل اور پھول کی حفاظت کرتے ہیں جن میں ان کی اگلی نسل یعنی بیج پیدا ہوتے ہیں۔پھلوں اور سبزیوں میں بیج کی حفاظت کا ایک مکمل انتظام ہوتا ہے جیسے انار میں سخت خول کے اندر اور ناریل میں تہہ در تہہ حفاظتی حصاروں کے اندر۔ کہا جاتا ہے کہ درخت اور پودے اپنی خوراک کا بہترین حصہ اپنے بیج یعنی اپنی اگلی نسل تک پہنچاتے ہیں۔ اسی لیے تو کچھ بیجوں میں وہ طاقت ہوتی ہے کہ وہ دوا کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ حکیم صاحب کے مطب میں مغزیات اور تخم کے نام کی جتنی بھی ادویات ہیں وہ دراصل بیج ہی ہوتے ہیں جن کو مختلف درختوں اور پودوں نے پیدا کر کے بڑی محبت اور حفاظت سے پالا ہوتا ہے جانور بھی اپنی اگلی نسل کے رہنے کے لیے مناسب بل اور گھر بناتے ہیں اور ان کی خوراک کا پورا بندوبست کرتے ہیں۔ کسی بھی دشمن اور نقصان دہ صورت حال کے خلاف ان کی حفاظت بھی کرتے ہیں۔ بلی اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے اپنے سے دس گنا بڑے اور طاقتور دشمن پر بھی جھپٹ پڑتی ہے۔ انسان اگلی نسل کی خواہش ‘ محبت اور حفاظت کے معاملہ میں تمام مخلوقات سے آگے ہے۔ وہ چاہے کوئی بھی ہو اولاد کی خواہش میں اللہ کے حضور دعا گو نظر آتا ہے۔ اگلی نسل کی خواہش اور اس کی حفاظت انسان اس لیے بھی کرتا ہے کہ اس کا نام اس کے مرنے کے بعد بھی زندہ رہے۔ ماں اولاد پیدا کرنے کے لیے بے تحاشہ صعوبتیں برداشت کرتی ہے اور بعد میں اس کے آرام اور حفاظت کے لیے اپنا آرام و سکون قربان کرتی رہتی ہے۔ باپ سارا دن محنت کر کے اپنی اولاد کے لیے اچھی سے اچھی رہائش اور بہترین خوراک کا بندوبست کرتا ہے۔ دونوں اپنی اولاد کو ہر گرم سرد سے بچانے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ انسان اور دیگر جانداروں میں ایک فرق یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ انسان وہ جاندار ہے جو اپنی اولاد کے ساتھ ساتھ دوسروں کی اولاد سے بھی محبت کرتا ہے۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کی بدولت انسان اشرف المخلوقات ہے۔ لہٰذا انسان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ صرف اپنی پیدا کردہ اولاد کے آرام و سکون اور حفاظت کے لیے ہی نہ سوچے بلکہ تمام مخلوقات اور آنے والی نسلوں کے بارے میں بھی غور و فکر کرے۔ بد قسمتی سے آج کا انسان اس معاملہ میں اپنے مقام و مرتبہ کے مطابق کوئی اچھی اور قابل فخر مثال قائم نہیں کر رہا۔ خوفناک اور تباہ کن اسلحہ کے انبار بنا کر وہ نہ صرف اپنی آنے والی نسلوں کی تباہی کا سامان کر رہا ہے۔ نفرتوں کو پروان چڑھا کر اور دنیا کو جنگوں میں جھونک کر اپنی نسلوں کو غیر محفوظ بنا رہا ہے۔ اپنے آج کے فائدے کے لیے جنگلات کاٹ کر اور زہر آلود صنعتیں لگا کر ماحول کو اس حد تک آلودہ کر رہا ہے کہ آنے والی نسلوں کو سانس لینے کے لیے صاف ہوا بھی میسر نہ آ سکے سرمائے اور وسائل کی اس حد تک غیر منصفانہ تقسیم کر رہا ہے کہ دنیا کے بیشتر حصوں میں انسانوں اور ان کی نسلوں کے لیے خوراک کا حصول بھی ناممکن ہو چکا ہے۔ آج کے انسان کو چاہیے کہ اپنی عقل و دانش‘ سائنسی تحقیق اور بے پناہ ترقی کو اپنی آنے والی نسلوں کے لیے رہائش‘ خوراک اور بہتر و محفوظ زندگی مہیا کرنے کے لیے استعمال کرے نہ کہ ان کے لیے بھوکی بیمار‘ اپاہج اور غیر محفوظ زندگی کا باعث بنے۔ بصورت دیگر وہ اشرف المخلوقات کی بجائے اس ننھی منی چڑیا ساکت و جامد درخت اور بے زبان جانوروں سے بھی نچلے درجہ پر گر جائے گا جو کم از کم اپنی پیدا کردہ اولاد کا تو خیال رکھتے ہیں مگر کسی کے لیے کوئی تباہی اور خطرہ کا باعث نہیں ہوتے۔ ٭…٭…٭
Bookmarks