ابن بطوطہ کے سفر نامہ میں بھکر، اوچ اور ملتان کا ذکر
بھکر سیہون سے میں بھکر گیا۔ یہ شہر بھی خوبصورت ہے۔ دریائے سندھ کی ایک شاخ اس کے بیچ میں سے گزرتی ہے۔ جس کا ذکر آگے بھی آئے گا اور اس شاخ کے وسط میں ایک خانقاہ ہے۔ وہاں مسافروں کو کھانا ملتا ہے۔ اس خانقاہ کو کثلوخاں نے اپنے دور حکومت میں تعمیر کیا تھا۔ اس شہر میں میری ملاقات امام عبداللہ حنفی اور قاضی شہر ابوحنیفہ اور شمس الدین محمد شیرازی سے ہوئی۔ شیخ شمس الدین کی عمر ان کے بیان کے مطابق اس وقت ایک سو بیس برس تھی۔ اوچہ (اوچ) بھکر سے چل کر ہم اوچہ کے شہر میں پہنچے۔ یہ شہر دریائے سندھ کے کنارے واقع ہے اور بہت بڑا ہے۔ بازار بہت عمدہ اور عمارتیں مضبوط ہیں۔ ان دنوں اس شہر کا حاکم سید جلال الدین کیجی تھا جو شجاعت اور کرم میں مشہور تھا۔ اس امیر کے ساتھ میری دوستی ہو گئی اور اس کے ساتھ اکثر صحبت ہوتی تھی۔ دہلی میں بھی ہم دونوں ملے اور جب بادشاہ دولت آباد کی طرف تشریف لے گئے اور سید جلال الدین بھی اس کے ساتھ گیا تو مجھے اجازت دے گیا کہ اگر مجھے ضرورت ہو تو اس کے گائوں کا محاصل وصول کر کے خرچ کر لیا کروں۔ چنانچہ میں نے پانچ ہزار دینار کے قریب اس میں سے خرچ کیا۔ اس شہر میں میں نے سید جلال الدین حیدری علویؒ کی زیارت کی اور انہوں نے مجھے اپنا خرقہ عنایت کیا۔ یہ شیخ بزرگان صالحین میں سے تھے اور یہ خرقہ اس وقت تک میرے پاس رہا جب مجھے ہندو ڈاکوئوں نے سمندر میں لوٹ لیا اور اس وقت یہ خرقہ بھی جاتا رہا۔ ملتان اوچ سے چل کر ملتان پہنچا۔ یہ شہر ملک سندھ کا دارالخلافہ ہے اور وہاں کا امیر الامرا بھی اسی شہر میں رہتا ہے۔ شہر میں پہنچنے سے پہلے دس کوس دور سے ایک دریا عبور کرنا پڑتا ہے۔ یہ دریا بہت چھوٹا اور عمیق ہے اور بغیر کشتیوں کے اس پر سے عبور نہیں کر سکتے۔ اس جگہ پار جانے والوں کے احوال کی تحقیقات ہوتی ہے اور ان کے اسباب کی تلاشی ہوتی ہے۔ اس زمانے میں اس جگہ ہر ایک تاجر سے ایک چوتھائی مال بطور محصول کے لے لیا کرتے تھے اور ہر گھوڑے پر سات دینار محصول لگتا تھا۔ میرے ہندوستان پہنچنے کے دو برس بعد بادشاہ نے یہ کل محاصل معاف کر دیئے تھے اور جب خلیفہ عباسی سے بیعت کی تو سوا عشر اور زکوۃ یعنی چالیسواں حصہ کے اور کوئی محصول باقی نہ رہا تھا۔ مجھے خوف تھا کہ کہیں سارا بھرم نہ کھل جائے۔ لیکن قطب الملک نے ملتان سے ایک فوج کے افسر کو بھیج دیا تھا اور اسے ہدایت کر دی تھی کہ میری تلاشی کوئی شخص نہ لے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ میں نے اللہ تعالی کا شکر ادا کیا۔ اس رات ہم دریا کے کنارے ٹھہر گئے اور علی الصبح میرے پاس دہقان سمرقندی جو ڈاک کا افسر اور بادشاہ کا اخبار نویس تھا آیا۔ میں نے اس سے ملاقات کی اور اس کے ہمراہ حاکم ملتان کے پاس گیا۔ ملتان کا حاکم ان دنوں میں قطب الملک تھا یہ شخص بڑا امیر اور فاضل تھا۔ جب میں اس کے پاس گیا تو میری تعظیم کے لیے اٹھا اور مصافحہ کر کے مجھے اپنے برابر جگہ دی۔ میں نے ایک غلام اور ایک گھوڑا اور کشمش اور بادام بطور تحفہ کے پیش کئے۔ کشمش اور بادام ان کے ملک میں نہیں ہوتے اور تحفے کے طور پر دیئے جاتے ہیں اور خراسان سے آتے ہیں۔جب قطب الملک کے پاس گئے تو اس کو سلام کیا تو اس نے ہمیں حکم دیا کہ ہم شہر میں شیخ رکن الدین قریشی کے متعلقین کے ساتھ قیام کریں اور ان کی یہ عادت تھی کہ وہ بغیر حاکم کی اجازت کے کسی کو اپنے پاس بطور مہمان کے ٹھہرنے نہ دیتے تھے۔ (ابن بطوطہ کے سفر نامہ سے اقتباس
Bookmarks