google.com, pub-2879905008558087, DIRECT, f08c47fec0942fa0
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.
    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 5 of 5

    Thread: پروردئہ لطف وکرم کی گواہی

    Threaded View

    1. #1
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,411
      Threads
      12102
      Thanks
      8,637
      Thanked 6,946 Times in 6,472 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      پروردئہ لطف وکرم کی گواہی



      پروردئہ لطف وکرم کی گواہی

      حضرت علی المرتضیٰ وہ خوش نصیب انسان ہیں جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آغوشِ تربیت اور نگاہ لطف وکرم نصیب ہوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب میرا یہ بچہ تو لد ہوا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام علی رکھا اور اسکے منہ میں اپنا لعاب دَہن ڈالا۔اور اپنی مبارک زبان اس کے منہ میں ڈالی جسے یہ مولود مسعود چوستا رہا یہاں تک کہ سوگیا۔(السیرة البنویہ ۔زینی دحلان)
      آپکے والد گرامی جناب ابو طالب مالی اعتبار سے زیادہ آسودہ نہ تھے۔ ایک بار مکہ میں قحط پڑا توان کے مالی حالات مزید کمزور ہوگئے۔حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے انکے معاملات ملاحظہ فرمائے تو اپنے چچا حضرت عباس کے پاس گئے اور انھیں ترغیب دی کہ ہمیں مل جل کر جناب ابو طالب کا ہاتھ بٹانا چاہیے۔ان کا ایک بیٹا کفالت کے لیے میں لے لیتا ہوںاور ایک کا ذمہ آپ اٹھا لیں۔چنانچہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی کفالت ،آپ نے اپنے ذمہ کرم پر لے لی۔اس طرح قدرت کے حسنِ انتظام نے حضرت علی کو اعلان نبوت سے پہلے ہی آغوش رسالت میں پہنچا دیا اور صدفِ احمدی میں پرورش پاکر یہ قطرئہ آبِ نیساں درشہسوار بن گیا۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے جس وقت آپ کو اسلام کی سعادت عطاءفرمائی ۔ اس وقت آپ کی عمر عزیز آٹھ برس تھی۔جب نماز کا وقت قریب آجاتا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی کسی وادی میں تشریف لے جاتے ۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم بھی عموماً آپکے ساتھ ہوتے اور وہاں مل کر نماز ادا کرتے اور شام کے وقت واپس آجاتے۔
      ابتدائی تین سال تک تبلیغ اسلا م کا سلسلہ خاموشی سے جاری رکھا۔اور مخصوص افراد تک اس کی دعوت پہنچائی گئی۔پھر اسکے بعد اعلان عام کا حکم ہوا، اور اپنے خاندان کے قریبی لوگوں تک پیغام اسلام پہنچانے کو کہا گیاہے۔ حکمِ ربانی کی تعمیل میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاندان کے لوگوں کو جمع کیا لیکن ابو لہب کی بدتہذیبی اور ناشائستہ گفتگو کی وجہ سے وہ محفل منتشر ہوگئی۔دوسرے دن آپ نے ایک مرتبہ پھر اپنے قریبی عزیزوں کوجمع کیا اور فرمایا کہ اے بنوعبد المطلب ! میں تمہارے سامنے دنیا اور آخرت کی بہترین نعمتیں پیش کرتا ہوں بتاﺅ۔اس معاملے میں کون میرا ساتھ دےگا ۔آپکی یہ بات سن کر جملہ حاضرین خاموش رہے۔فقط علی اسد اللہ رسولہ کی آواز ابھری ، انہوں نے عزم وثبات سے بھرپور لہجے میں کہا۔اگر چہ میں اس مجلس میں سب سے کم سن ہوں۔آشوب چشم میں مبتلارہتا ہوں،میری ٹانگیں بھی ناتواں ہیں، لیکن میں اسلام کے راستے میں آپکا ساتھ دوں گا۔ چشم فلک پیر نے دیکھا کہ اللہ نے علی کی عمرِ عزیز کو بابرکت کیا، انھیںدیدئہ بیناعطا ءکیا۔اور انکے قدموں کو وہ عزم وثبات عطاءکیا جو جرات وپامردی کا استعار ہ بن گیا۔





      علامہ رضا الدین صدیقی
      ***




      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    2. The Following 2 Users Say Thank You to intelligent086 For This Useful Post:

      Dr Danish (10-02-2017),KhUsHi (03-19-2017)

    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Tags for this Thread

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •