نوشین امبر
آپ نے ترقی یافتہ ملکوں میں موجود بڑے بڑے شاپنگ مالز کے متعلق تو پڑھا ہو گا جہاں ضروریات زندگی کے علاوہ ہر قسم کا سامان تعیش بھی موجود ہوتا ہے۔ ان شاپنگ مالز میں دکانیں،ہوٹل، ریسٹورنٹ، بینک، سینما گھر، پلے لینڈز، کلب، بار، سوئمنگ پول غرض تفریح کا ہر سامان موجود ہوتا ہے۔ یہ مالز کسی چھوٹے شہر کے مانند ہی ہوتے ہیں۔ سن وے پیرامڈ، استنبول کیواہر، سنٹرل ورلڈ، اتاما شاپنگ مال اول، ایس ایم سٹی نارتھ، نیو ساؤتھ چائنہ مال، بیجنگ مال، ویسٹ ایڈمنٹن مال، دبئی مال اور مال آف امریکہ کا شمار دنیا کے بڑے شاپنگ مالز میں ہوتا ہے جہاں جا کر انسان ششدر رہ جاتا ہے۔ لیکن ان فلک بوس عمارتوں کے علاوہ دنیا میں کچھ چھوٹے چھوٹے بازار ایسے بھی ہیں جن کی حیثیت ان شاپنگ مالز کے مقابلے کچھ بھی نہیں لیکن یہ پھر بھی انسان کا دل موہ لیتے ہیں اور وہ دوبارہ آنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ان بازاروں کی منفرد بات یہ ہے کہ یہ پانی پر تیرتے ہیں۔ سن کا عجیب سا لگ رہا ہے نا؟ آئیں آپ کو پانی پر تیرتے ان بازاروں کا تعارف کرواتے ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیا کے ملکوں تھائی لینڈ، انڈونیشیا، فلپائن اور ویتنام میں، جہاں لوگ قریب قریب موجود چھوٹے بڑے جزیروں مجمع الجزائر میں رہائش پذیر ہیں، بحری سفر روز مرہ کی زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے۔ صرف انڈونیشیا میں ہی 18 ہزار کے لگ بھگ جزیرے ہیں۔ ان جزیروں پر رہنے والے لوگوں کے لیے ذریعہ سفر صرف سمندر ہے۔ دوسرے جزیروں پر آنے جانے اور دیگر علاقوں سے سامان خرید کر لانے یا بیچنے کے لیے کشتیاں ہی استعمال ہوتی ہیں۔ انہی کشتیوں پر باراتیں بھی جاتی ہیں اور بچے بھی سکول جانے کے لیے ان کا استعمال کرتے ہیں۔ جب سفر ہی سمندر میں کرنا ہو تو پھر کشتیوں کی اہمیت سے انکار کیسا۔ انڈونیشیا، تھائی لینڈ اور ویتنام کے پانی پر تیرتے ہوئے بازار دنیا بھر میں شہرت رکھتے ہیں۔ لوگ کشتیوں میں بیٹھ کر خریدو فروخت کرتے ہیں؛ مقامی لوگوں کے لیے خریداری اور سیاحوں کے لیے سیر و سیاحت۔ پانی پر تیرتے یہ بازار بالخصوص ان علاقوں میں موجود ہیں جہاں خشکی کم ہے ،بیشتر دکاندار دوسرے جزیروں پر جا کر مال فروخت کرتے ہیں، اس لیے انہوں نے کشتیوں کو ہی دکان بنا لیا ہے۔ دکاندار اور تاجر کشتیوں پر ہی دوسرے علاقوں سے چیزیں خرید کر لاتے ہیں اور پھر دکانیں بھی انہی کشتیوں پر سجا لیتے ہیں۔ ان علاقوں میں گزشتہ چار سو سالوں سے کشتیوں پر اشیا کی خریدوفروخت ہو رہی ہے۔ چند دہائیاں قبل کشتیوں پر زیادہ تر پھل اور سبزیاں ہی فروخت کی جاتی تھیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بازار سیاحت کے فروغ کا ذریعہ بھی بن گئے۔ ان ملکوں کے سیاحت کے شعبے میں پانی پر تیرتے بازاروں کا ایک بڑا حصہ ہے۔ اب ان کشتیوں پر پھلوں اور سبزیوں کے علاوہ کپڑے ، ہاتھ سے بنی آرائشی اشیا اور روز مرہ کی دیگر چیزیں بھی فروخت کی جاتی ہیں۔ کشتیوں میں ہوٹل بھی بنائے گئے ہیں جن میں بیک وقت چار سے پانچ لوگ بیٹھ کر روایتی کھانوں کا مزہ لے سکتے ہیں۔ بعض دکاندار اپنے گاہکوں کو خوش کرنے کے لیے روایتی لوک گیت بھی سناتے ہیں۔ سیاح پانی پر تیرتے ہوئے خریداری کرتے ہیں، کھانا کھاتے ہیں اور کیمرے کی آنکھ میں ان لمحوں کو قید کر لیتے ہیں۔ غیر ملکیوں کے لیے تو یہ خاصے کی چیز ہے۔ پانی پر تیرتے بازاروں کی دو اقسام ہیں؛ ایک بازار جو کشتیوں پر مشتمل ہیں۔ دکانداروں نے کشتیوں میں ہی چیزیں سجا رکھی ہیں۔ لوگ کشتیوں میں بیٹھ کر ان دکانوں پر جاتے ہیں اور خریداری کرتے ہیں۔ دوسری قسم کے بازار وہ ہیں جو جھیل یا نہر میں بنائے گئے لکڑی کے بڑے بڑے چبوتروں پر سجائے گئے ہیں۔ پانی میں کھڑے کئے گئے مضبوط ستونوں پر لکڑی کے تختے بچھائے جاتے ہیں اور پھر ان پر چھوٹی چھوٹی دکانیں بنائی جاتی ہیں۔ یہ دکاندار جن میں مرد و خواتین شامل ہیں، شام ڈھلتے ہی گھر کی راہ لیتے ہیں۔ ان دکانداروں کا صبح گھر سے نکل کر مارکیٹ آنے اور پھر شام کو گھر لوٹنے کا سفر بھی خاصا دلچسپ ہوتا ہے۔ ان لوگوں کی کشتیاں چھوٹی چھوٹی ہوتی ہیں اور پندرہ سے بیس افراد مل کر کسی بڑے جہاز کے ساتھ معاملات طے کرتے ہیں جو ان تمام کشتیوں کو مضبوط رسے کے ساتھ باندھ کر مطلوبہ مقام پر پہنچا دیتا ہے۔ بڑے جہاز کے ساتھ کشتیاں دو قطاروں میں آگے پیچھے بندھی ہوتی ہیں جو کافی دلچسپ نظارہ ہوتا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جنوب مشرقی ایشیا کے ان ملکوں کے علاوہ برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں بھی ایک مارکیٹ ایسی ہے جو نہر کنارے بنائی گئی ہے جہاں لوگ کشتیوں میں بیٹھ کر خریداری کے لیے آتے ہیں۔ رات کے وقت کشتیوں پر لگائی گئی رنگ برنگی لائٹس سے نہر جگمگانے لگتی ہے ، یہ نظارہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔ کیا بعید کہ یہ مارکیٹ تھائی لینڈ اور انڈونیشیا کی مارکیٹوں سے متاثر ہو کر ہی بنائی گئی ہو۔ ٭…٭…٭
Bookmarks