جمیل اختر
مرزاغالبؔ نے اپنے ایک شعر میں ہزار برس تک جینے کی دعاکی اور ہر برس بھی ایسا، جو 365 کی بجائے 50 ہزار دن کا ہو!نجومیوں اور دست شناسوں کے پاس جانے والے اُن سے اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ اب ان کی کتنی عمر باقی ہے؟ اب نجومی کے ساتھ شامل ہورہا ہے، ڈاکٹر بھی ، جو خون کے صرف ایک ٹیسٹ کے بعد آپ کی صحت کے ساتھ یہ بتا سکے گا کہ آپ کی عمر کی کتاب کے کتنے صفحے باقی رہ گئے ہیں۔ خون کا یہ نیا ٹیسٹ اصل میں ڈی این اے کے بارے میں یہ بتائے گا کہ وہ اپنے سفر کی کس منزل پر ہے اور یہ کہ وہ بڑھاپے سے کتنا دُور ہے ۔ سائنس دانوں کے مطابق بڑھاپا موت کی جانب سفر کا آغاز ہے۔ یہ دَور شروع ہوتے ہی خلیوں میں شکست و ریخت شروع ہوجاتی ہے، جس کے نتیجے میں اعضاء کمزور ہونے لگتے ہیں ، بیماریوں کے خلاف مدافعت کم ہوجاتی ہے، جلد ڈھلکنے اور جھریاں ظاہر ہونے لگتی ہیں۔بڑھاپا ایک خاص عمر کو پہنچنے کے بعد شروع ہوتاہے، تاہم یہ عمر ہر علاقے، ہر نسل اور عورت اور مرد کے لیے مختلف ہے۔ اسی لیے بعض علاقوں کے لوگ لمبی عمر پاتے ہیں اور بعض علاقوں میں عمر کی اوسط کم ہوتی ہے۔ اکثر صورتوں میں عورتوں کی عمریں، مردوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے کیونکہ ان کا ایک خاص ہارمون بڑھاپے کو کئی برس تک روکے رکھتا ہے۔ سائنس دانوں کا کہناہے کہ انسان کی عمرکا تعین اس کا ڈی این اے کرتا ہے۔ڈی این اے کو آپ لوح ِمحفوظ کہہ سکتے ہیں، جس پر زندگی سے متعلق تمام ہدایات درج ہوتی ہیں اور ہم انہی ہدایات کے مطابق اپنی زندگی گزارتے ہیں۔سائنسی زبان میں یہ ہدایات ’ کوڈ‘ کہلاتی ہیں۔ڈی این اے انسان کی عادات، مزاج اور نیکی اور بدی کی طرف رجحان کا تعین کرتا ہے یہ طے کرتا ہے کہ کتنی عمر کو پہنچ کر بڑھاپا شروع ہوجائے گا اور پھر بڑھاپے کا دَور کتنی مدت میں ختم ہوجائے گا۔چند سال پہلے سائنس دانوں کو انسانی ڈی این اے کے کئی خفیہ کوڈ پڑھنے میں پہلی بار کامیابی ہوئی تھی، جسے ماہرین نے اس صدی کی سب سے بڑی کامیابی قرار دیا تھا۔ ڈی این اے پر تحقیق جاری ہے اور انسانی لوح ِمحفوظ کے خفیہ رازوں سے آہستہ آہستہ پردہ اٹھ رہاہے۔ اس سلسلے کی تازہ ترین کامیابی انسان کی عمر کا تعین ہے۔ ڈی این اے بل کھاتے ہوئے دھاگے کی شکل کا ہوتا ہے، جس میں تین مخصوص پروٹین ہوتے ہیں۔ ہر انسان میں ان کی ترتیب مختلف ہوتی ہے اور یہی ترتیب کوڈ کہلاتی ہے۔ ہر ڈی این اے کے آخری سرے پر گرہ ہوتی ہے ،جس کا کام ڈی این اے کو اپنی اصل شکل میں قائم رکھنا ہوتاہے۔ اس گرہ کا سائنسی نام ٹیلومیر ہے۔ڈی این اے وقت گزرنے کے ساتھ اپنی ایک نقل تیار کرتا ہے، جو خراب یا بوسیدہ ہوجانے والے خلیوں کی جگہ لے لیتی ہے، مگر ہوتا یہ ہے کہ ہر نقل کے بعد اس کے ٹیلومیر کی لمبائی قدرے کم ہوجاتی ہے۔ سائنس دانوں کا کہناہے کہ مخصوص سائنسی پیمانے پر ایک ٹیلومیر کی لمبائی قریباً 1500 پوانٹس ہوتی ہے ، لیکن نقل تیار ہونے کے بعد ٹیلومیر کی لمبائی 25 سے 200 پوانٹس تک کم ہوجاتی ہے۔ اپنی کئی نقلیں تیارکرنے کے بعد ٹیلومیر قریباً ختم ہوجاتا ہے اور یہ وہ مقام ہے، جہاں ڈی این اے اپنی نقل بنانا بند کردیتاہے۔ جب نئے خلیے بننا بند ہوجاتے ہیں، تو جسم کو اپنے پرانے خلیوں کے ساتھ گزارہ کرنا پڑتا ہے۔ یہ بڑھاپے کے دَور کا آغاز ہوتا ہے۔ خلیے آہستہ آہستہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہوتے مردہ ہوجاتے ہیں اور یہی اس کی فطری موت ہوتی ہے۔ سائنس دانوں کو یہ تو علم تھا کہ ٹیلومیر کی لمبائی کا تعلق انسان کی عمر سے ہے، تاہم ان کے پاس کوئی ایسا ٹیسٹ موجود نہیں تھا، جس سے یہ معلوم کیا جاسکے کہ بڑھاپا طاری ہونے کی رفتار کیا ہے اور یہ کہ بڑھاپے کی آخری منزل کتنے عرصے میں آسکتی ہے، مگر حال ہی میں انہوں نے یہ پتا لگانے کا ایک طریقہ ڈھونڈ لیا ہے اور اس ٹیسٹ کو انہوں نے نام دیا ہے ’ ڈیتھ ٹیسٹ‘ یعنی موت کاٹیسٹ۔ برطانیہ میں قائم ایک کمپنی ’لائف لینتھ ‘ نے کہا ہے کہ وہ اس سال کے آخر میں یورپ اور امریکا میں عام لوگوں کے لیے ’ ڈیتھ ٹیسٹ ‘ کی سہولت کا آغاز کررہی ہے۔ برطانیہ میں یہ ٹیسٹ 435 پاؤنڈ جب کہ امریکا میں قریباً 700 ڈالر میں کروایا جاسکے گا۔میڈرڈ میں قائم نیشنل کینسر ریسرچ سینٹر کے شعبہ ٹیلومیر کی سربراہ ماریا بلاسکو کا کہناہے کہ اس ٹیسٹ کے ذریعے یہ معلوم ہوسکے گا کہ ٹیلو میر کے گھٹنے کی رفتار کیا ہے اور یہ کہ ہم بڑھاپے اور موت سے کتنے فاصلے پر ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ جاننے میں بھی مدد ملے گی کہ بیماریوں میں مبتلا ہونے کا خطرہ کتنا بڑھ گیا ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ’ ڈیتھ ٹیسٹ‘ درحقیقت موت کا نہیں بلکہ زندگی کا ٹیسٹ ہے کیونکہ یہ ٹیسٹ آپ کو خبردار کرتا ہے کہ اگر آپ اپنی موجودہ ڈگر پر چلتے رہے اور اگر اپنے معمولات اور خوراک میں تبدیلی نہ کی، تو ایک خاص مدت کے بعد اجل کا فرشتہ دروازے پر دستک دے رہا ہوگا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ جس طرح کسی الیکٹرانک آلے کو احتیاط سے استعمال کرنے سے وہ اپنی گارنٹی ختم ہونے کے بعد بھی چلتا رہتاہے ،اسی طرح ’ڈیتھ ٹیسٹ ‘کے بعد آپ صحت مند طرز زندگی اپنا کر اپنی طبعی عمر سے زیادہ عرصے تک جی سکتے ہیں۔ ٭…٭…٭
Bookmarks