لہریں پڑیں تو سویا ہُوا جَل مچل گیا
پربت کو چیرتا ہُوا دریا نِکل گیا
رنگوں کے اِمتزاج میں پوشیدہ آگ تھی
دیکھا تھا میں نے چُھو کے مِرا ہاتھ جل گیا
اکثر، پہاڑ سر پہ گِرے اور چُپ رہے
یُوں بھی ہُوا کہ پتّہ ہلا، دِل دہل گیا
پہچانتے تو ہوگے نِدا فاضلی کو تم
سُورج کو کھیل سمجھا تھا، چُھوتے ہی جل گیا
نِدا فاضلی
Bookmarks