یہی نہیں، کہ فقط ہم ہی اِضطراب میں ہیں
ہمارے بُھولنے والے بھی اِس عذاب میں ہیں
اِسی خیال سے ہر شام جلد نیند آئی
کہ مجھ سے بِچھڑے ہُوئے لوگ شہرِ خواب میں ہیں
وہی ہے رنگِ جنُوں ترکِ ربط و ضبط پہ بھی
تِری ہی دُھن میں ہیں، اب تک اُسی سراب میں ہیں
عزیز کیوں نہ ہو ماضی کا ہر وَرَق ہم کو
کہ چند سُوکھے ہُوئے پُھول اِس کِتاب میں ہیں
!شناوروں کی رسائی کے مُنتظر، ساجد
ہم اپنے عہد کے اِک شہرِ زیرِآب میں ہیں
اعتبار ساجدؔ



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out


Reply With Quote

Bookmarks