یہ ہجر کا راستہ ہے جس پر میں تنہا تنہا سی چل رہی ہوں


بس اُس کی یادوں کی دھوپ ہے ، اور میں قطرہ قطرہ پگھل رہی ہوں


یہ وصل لمحوں کی روشنی ہے جو دل کی دنیا میں آ بسی ہے

مہکتی یادوں کی چاندنی ہے ، میں جس کی کرنوں سے جل رہی ہوں


رہِ وفا میں بھٹکتی رہتی جو تیرے سپنوں میں گم نہ ہوتی

ترے خیالوں میں جی رہی ہوں ، ترے تصور میں ڈھل رہی ہوں


شکستہ خوابوں کی کرچیاں ہیں جو میری آنکھوں میں چبھ رہی ہیں

میں خار زاروں میں چل رہی ہوں ، میں گرتے گرتے سنبھل رہی ہوں


زمانے بھر کی یہ تلخیاں ہیں جو میرے لہجے میں آ بسی ہیں

مَیں اپنے شعروں میں دھیرے دھیرے ، یہ زہر مایہ اگل رہی ہوں


کروں گی کیا بال و پر کو اپنے قفس میں جینا جو لازمی ہے

کہاں ہے شاہین شادمانی ، دکھوں کی دنیا میں پل رہی ہوں

٭٭٭