کرتی ہے انتظار میرے گاؤں کی مٹی
رہتی ہے بےقرار میرے گاؤں کی مٹٰی
وہ نیم کی خوشبو وہ دھوپ وہ ہوا
دیتی ہے اعتبار میرے گاؤں کی مٹی
گھر کے درخت سایہءِ آنچل کے رازمند
مجھ پہ ہے جاںثار میرے گاؤں کی مٹی
بارش کے وہ تالاب اور کاغذ کی کشتیاں
اب تک ہے ایماندار میرے گاؤں کی مٹی
چوکھٹ پر رکھ کے پیر جسے روند آیا میں
اے شمس وہ ہے پیار میرے گاؤں کی مٹی
شمس الحسن
Bookmarks