مجھے اپنے ضبط پہ ناز تھا سرِبزم رات یہ کیا ہوامیری آنکھ کیسے چھلک گئی مجھے رنج ہے یہ برا ہوا
میری زندگی کے چراغ کا یہ مزاج کوئی نیا نہیںابھی روشنی ابھی تیرگی نہ جلا ہوا نہ بجھا ہوا
مجھے جو بھی دشمنِ جاں ملا وہی پختہ کارِ جفا ملانہ کسی کی ضرب غلط پڑی نہ کسی کا وار خطا ہوا
مجھے آپ کیوں نہ سمجھ سکے کبھی اپنے دل سے پوچھئےمیری داستانِ حیات کا تو ورق ورق ہے کھلا ہوا
جو نظر بچا کے گزر گئے میرے سامنے سے ابھی ابھییہ میرے ہی شہر کے لوگ تھےمیرے گھر سے گھر ہے ملا ہوا
ہمیں اس کا کوئی بھی حق نہیں کہ شریکِ بزمِ خلوص ہوںنہ ہمارے پاس نقاب ہے نہ کچھ آستیں میں چھپا ہوا
میرے ایک گوشہ ءِ فکر میں میری زندگی سے عزیز ترمیرا ایک ایسا بھی دوست ہے جو کبھی ملا نہ جدا ہوا
مجھے ایک گلی میں پڑا ہوا کسی بدنصیب کا خط ملاکہیں خونِ دل سے لکھا ہوا کہیں آنسوؤں سے مٹا ہوا
مجھے ہم سفر بھی ملا کوئی تو شکستہ حال میری طرحکئی منزلوں کا تھکا ہوا کہیں راستے میں لٹا ہوا
ہمیں اپنے گھر سے چلے ہوئے سرِ راہ عمر گزر گئیکوئی جستجو کا صلہ ملا نہ سفر کو حق ہی ادا ہوا
اقبال عظیم
Bookmarks