اج سانولڑے مکلایا:آج میرا سانولا سنولا پیارا محبوب مجھ سے بچھڑ رہا ہے، جس کی وجہ سے میں نے سر پر دکھوں کا بوجھ اٹھایا ہوا ہے ۔سارے غم اسی کے فراق کے سبب ہیں ۔اے عظیم اور مقدس قبلہ تو ہر عیب سے پاک ہے ۔یہاں پر چھوٹا بڑا خاص و عام سوال بن کر آتا ہے اور جس نے یہاں سے جو مانگا، اس کو وہی کچھ اسی دَر سے ملا ہے۔قبلہ وکعبہ قابلِ تکریم اور اللہ تعالیٰ کی خاص جگہ ہے اور یہ اسی کا حرم پاک ہے اور اللہ کا گھر ہے ،جو رحمت کاسرمایہ ہے ۔یہاں ہر لمحہ رحمت کانزول ہوتا ہے ۔اے سیاہ رنگ کے غلاف والے مجسم نور !تو سب سے اعلیٰ ہے ۔مسلمانانِ عالم کا عظیم مرکز اور عظیم شہر ہے ۔بے شک جو حرم شریف کی پناہ میںآگیاوہ امن پانے والے دنیا کے فکروں سے آزاد اور بے غم ہو گیا ہے ۔حرم پاک کو یاد کر اور ہر لمحہ یاد رکھ اور اپنے پچھلے غموں کو بھول جا ۔اگر حرم شریف سے جدائی ہو تو دل چاہتا ہے کہ زہر کھالو ں کیونکہ اس کے بغیر یہ زندگی بے کار اور ایک فریب کے سوا کچھ نہیں ۔جب سے ہم نے اپنی باگ ڈور کا رُخ اپنے وطن کی طرف موڑ لیا ہے، اس وجہ سے ہمیں بے شمار غم،اُداسیاں اور دُکھ ملے ہیں ،لیکن دل میں سچی پریت ترے مقدس شہر کی لگ چکی ہے۔ اے خدا، ہمیں دوبارہ اپنے مقدس شہر (مکہ مکرمہ)کی زیارت نصیب فرما اور دوبارہ ملادے۔محبوب کے لیے دل ملنے کا بہت متمنی ہے ۔ہر لمحہ یہی آرزو لیے ہوئے ہے کہ گھرہویا شہر یابازار، جہاں بھی جائیں کہیںدل کو قرار نہیں ملتا ہے۔ دوبارہ طواف کرنے کو دل چاہتا ہے اور طواف کے دوران جو دھکے نصیب ہوتے ہیں، وہی دھکے کھانے کی آرزو ہے اور اس میں ایک ایسی عقیدت ہے کہ دل چاہتا ہے کہ باربار یہ دھکے کھائیں ۔اے خدا، ہمارے وہاں دوبارہ جانے کا سبب پیدا کردے۔اے فرید!میں محبوب کی جدائی برداشت نہیں کر سکتا اور اس کے ہجر کے غم میں مبتلا ہوگیا ہوںاور خون کے آنسو رورہا ہوں اور آخر کار انہی غموں کے بوجھ تلے مر جائوں گا کیونکہ ان دکھوں نے مجھے جلا کر راکھ کر دیا ہے ۔ اَنہد مرلی شور مچایا:انہد کی بانسری نے شور برپا کر دیا ہے۔ تصوف میں یہ کیفیت پیداہوئی ہے، جس میںسالک یعنی صاحبِ کیفیت کے کانوں ایک خاص قسم کا شور سنائی دیتا ہے اور اس پر بہت مقاما ت کے اسرار کھل جاتے ہیں ۔میرے مرشد نے مجھے راز کی تمام باتیں بتادی ہیں۔ا س سے میرے عقل و فکر اور فہم پر ایک خاص کیفیت طاری ہو گئی ہے اور میں عقل و ہو ش کھو بیٹھا ہوں اور مدہوشی کے عالم میں جو اسرار و رموز آشکا رکیے ہیں، یہ سب میرے مرشد کی خاص نگاہ سے ہوا ہے اور مجھے انوار و تجلیات کا مشاہدہ کرا کے اصل مقام تک پہنچایا ہے ،جو کامیابی کاراستہ ہے ۔ہم نے وحدت کو بالکل ظاہری طور پر دیکھا ہے اور حقیقت کی منزل کوسمجھ لیا ہے ۔ہم پر تمام پوشیدہ راز ظاہر اور پوشید ہ حقیقتیں آشکار ہوگئی ہیں، یعنی ہمیں علم عرفان حاصل ہو چکا ہے ۔اب ہم اسی کے گن گائیں گے۔راز و اسرار کی باتیں بڑی باریک اور نکتے والی ہوتی ہیں، مگر وہ اب کہ حقیقت کا نور زیادہ روشن ہو گیا ہے ۔دنیا کی ہر چیز ظاہر ہو یا پوشیدہ سمجھنے کے قابل ہے ۔علم عرفان نے ہمارے اندر دور و نزدیک کا فرق مٹا دیا ہے ۔اَنہد کی بانسری (عرفان حق)نے ہمیں پوشیدہ باتیںبتائی ہیںاور پوشیدہ اور انوکھی راہیں بتادی ہیں اور ایسی سوجھ بوجھ پیدا کردی ہے کہ تمام چھوٹی اور غلط صفتیںغائب ہوگئی ہیںکہ اب وہ دور آگیا ہے ،اُسی کی بادشاہت کاتسلط اور غلبہ ہر جادکھائی دینے لگا ہے ۔شرابِ طہور کے پیالے پی کر ہم ایک اپنی مثال آپ کی طرح کے عاشق بن گئے ہیں اور نماز و روزے کا ہوش نہیں بلکہ ہروقت روزے اور نماز کی حالت میںاسی سے لو لگا بیٹھے ہیں اور ہم نے رندی رندانہ انداز میں اپنے آپ کو ڈھالا ہے۔یہ جو جاہل گنوار لوگ اندھا دھند تقلید کرتے ہیں اور دوسروں سے پیچھے لگ جاتے ہیں ۔وہ اس مقدس طریقت کو کیونکر سمجھ پائیں گے اور انہیں آنکھوں سے دیکھتے نہیں ۔یہ تو وہ مقام ہے، جہاں پر تمام قیود سے آزاد ہو کر مشاہدہ کیا جاتا ہے، پھر اسے ہر صورت میںایک جلوہ نظر آتا ہے کہ وہ ہر صورت میں سمایا ہے ۔ جب مجھے توحید کی رمزملی ،تو میرا دل دوسروںکی تقلید و پیروی کرنے سے آزاد ہو گیا، پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے غلام فرید کو اللہ کے بندے کا مقام ملا،تو وہ اپنی روح کے راز کو پہچان گیا ۔یہ راز (فنافی اللہ )کا راز تھا، جو اُس پر کُھل گیا اُس نے اعلانیہ اظہار کیا۔ (’’کوئی محرم راز نہ ملدا ‘‘ ترجمہ سلیم اختر) ٭…٭…٭
Bookmarks