حامد برگی
ہر خوبصورت اور دلکش بات ضروری نہیں کہ قابلِ عمل بھی ہو جس طرح ہر سہانی آرزو ضروری نہیں کہ پوری بھی ہو سکے۔ ویسے بھی سہانی آرزو کا تعلق محض ہمارے خواب و خیال سے ہوتا ہے عملی زندگی سے نہیں ہوتا۔ شاید حقیقت کا سامنا کرنے کی اس میں تاب ہی نہیں ہوتی۔ حقیقت کو اسی لیے تلخ کہا جاتا ہے۔ خیال اور حقیقت میں بڑا فرق ہے، خیال کی کوئی انتہا اور حدو بست نہیں جبکہ خیال کو حقیقت کے حدوبست میں لانے کا عمل بڑا کٹھن ہے۔ انسان کی ایک فضیلت یہ بیان کی جاتی ہے کہ اسے سوچنے سمجھنے اور غور کرنے کی صلاحیت سے نوازا گیا ہے۔ انسان کے علاوہ کوئی اور جاندار اس طرح سوچنے سمجھنے اور غور کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس کا تعلق تو صرف حال سے ہوتا ہے اور حال میں بھی صرف موجود لمحے سے جبکہ انسان کی عقل و فکر ماضی، حال اور مستقبل تینوں کا احاطہ کر سکتی ہے۔ میں سوچتا ہوں انسان کی یہ صلاحیت کیا واقعی اپنے اندر کوئی فضیلت رکھتی ہے؟ میر ے نزدیک یہ صلاحیت بیک وقت دُکھ بھری بھی ہے اور مضحکہ خیز بھی، حال اور موجود کا دکھ ہی اسے کیا کم ہے کہ وہ ناموجود زمانوں کے دکھوں کو بھی اپنے تصرت میں لانے کی کوشش کرے۔عقل مند لوگ شیخ چلی کی قوتِ متخیّلہ کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اس کی سہانی سوچوں اور دلکش آرزئوں کو خیالی پلائو کہہ کر اور ہوائی قلعوں سے تعبیر کر کے اسے ایک کم درجہ انسان خیال کرتے ہیں اور ان لوگوں کو بالکل کچھ نہیں کہتے جن کی زندگیاں بلند آرزئوں اور روشن امیدوں سے خالی ہیں، جو اپنے سامنے کوئی آدرش نہیں رکھتے، جو ماضی و مستقبل سے لا تعلق محض حال کے لمحے میں زندہ ہیں حالانکہ فقط حال کے لمحے میں جینا، جینے کا بہت نچلا درجہ ہے۔ فکر و تخیل سے عاری بے حسی کی میکانکی زندگی، کھانے پینے اور سورہنے کا عمل، جس میں کوئی احتجاج نہیں، کوئی اضطراب نہیں، زندگی کو گزارے چلے جانے کا عمل ہے۔ کوئی روشن تصور موجود نہیں، کوئی جدوجہد ممکن نہیں، کسی شے کو حاصل کرنے اور پالنے کی کوئی آرزو نہیں، کوئی میٹھا سہانا خواب نہیں، کچھ بھی نہیں۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو شیخ چلی ایک مکمل انسان دکھائی دیتا ہے‘ اس کے پاس صرف روشن خیالیاں ہی نہیں جدوجہد کا ایک تصور بھی موجود ہے، اس کی اس جدوجہد نے ہی اس کے خیال کو مہمیز لگائی ہے، اس کے خیال و خواب کی پرواز قطعی بعیداز قیاس منزلوں کی طرف نہیں، اس نے اپنی کامیابیوں اور کامرانیوں کا جو ڈول ڈالا ہے اسے فراخی و کشادگی، فراوانی و خوش حالی کے اس مقام تک پہنچا دیا ہے جہا ں ایک زمانہ اس کی ناز برداری کرتا اور اسے سر آنکھوں پہ بٹھاتا نظر آتا ہے جہاں خدام ذی حشام اسے اپنے جلو میں کھڑے اپنے حکم اور اشارے کے منتظر دکھائی دیتے ہیں اور چشم زدن میں کسی بھی ملکہ سبا کی مسند اس کے حضور لاحاضر کرنے کو تیار ہیں، شیخ چلی کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنے اس کرو فر اور اختیار سے خود مرعوب نہیں ہوتا۔ وہ اس صورت حال پر پوری طرح حاوی نظر آتا ہے وہ ونڈر لینڈ کی چکا چوند میں ایلس کی طرح حواس باختہ پریشان اور مضطرب دکھائی نہیں دیتا،کسی قسم کے خلجان میں مبتلا نہیں بلکہ بڑے بالغ اور پختہ رویے کا اظہار کرتا ہے اس کی شان و مقام کے آگے ملکہ حسن و جمال کی حیثیت بھی ایک ادنیٰ کنیز سے زیادہ نہیں۔ حکم مدولی کی صورت میں وہ بھی اس کے عتاب کا نشانہ بنتی ہے۔ یہ اور بات کہ اس پیش پا افتادہ صورت حال میں اس کی کنیز و غلام ملکہ عالیہ نہیں بلکہ کانچ کے برتنوں سے بھری ٹوکری ہوتی ہے جو اس کی ایک ہی ٹھوکر سے چکنا چور ہو جاتی ہے، اس ایک ٹھوکر سے اس کے کانچ کے برتن ہی چکنا چور نہیں ہوتے، اس کے تصور و خواب کی کرچیاں بھی بکھر جاتی ہیں، کیا یہی سب کچھ ہماری زندگیوں میں اور ہمارے گرد و پیش نہیں ہو رہا، اگر نہیں ہو رہا تو وہ لوگ جو شیخ چلی پر ہنستے ہیں اس کا مذاق اڑاتے ہیں، اس سے بہت چھوٹے انسان ہیں۔ ان کی نظر اپنی ناک کی نوک سے آگے نہیں جاتی۔ وہ انتہائی محدود سوچ رکھنے والے انسان ہیں، بلند آورش سے خالی، روشن امیدوں سے عاری، پختگی، فکر و عمل اور خود اعتمادی کے جوہر قابل سے محروم ! یہ شیخ چلی کے کردار کی بلند ہمتی اور عزم و حوصلہ ہی ہے جو اسے نتائج سے بے نیاز کر دیتا ہے اور پوری صورتِ حال پر حاوی کر دیتا ہے۔ اگر زندگی کا مدار حقیقت بینوں اور معقولیت پسندوں کے ہاتھوں میں ہوتا تو زندگی کی گاڑی اب تک مکمل بریک ڈائون کا منظر دکھا چکی ہوتی۔ ہم ابھی ابتدائی مدارج میں ہی ہوتے اور غاروں، جھونپڑوں، گھروں، مکانوں، محلوں سے سکائی سکریپرز تک کا فاصلہ طے نہ کرپاتے۔ انسان نے شیخ چلی بن کر ہی قدم آگے بڑھایا ہے۔ شیخ چلی پر ہنسنے والوں اور پھبتی کسنے والوں میں اکثریت ان ہی لوگوں کی ہے جنہوں نے اپنے اندر کے شیخ چلی کو پاباز نجیر کر رکھا ہے اور بظاہر جیتے جاگتے نارمل انسانوں کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔
Bookmarks