ملک یمن میں آباد قبیلہ طے کے سردار حاتم طائی کے پاس عربی نسل کا ایک بہت ہی عمدہ گھوڑا اپنا جواب نہ رکھتا تھا۔ ایک دن روم کے بادشاہ کے دربار میں حاتم طائی کی سخاوت اور اس کے سبک رفتار گھوڑے کے بارے میں بات ہو رہی تھی۔ اپنی اپنی معلومات کے مطابق ہر آدمی حاتم طائی کی تعریف کر رہا تھا۔ درباریوں کی یہ باتیں سن کر بادشاہ نے کہا جب تک آزمانہ لیا جائے، کسی کے بارے میں رائے قائم کرنا عقل مندی کے خلاف ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ کچھ لوگ حاتم طائی کے پاس جائیں اور اس سے وہی گھوڑا مانگیں۔ اگر وہ دے دے تو بے شک تعریف کا حق دار ہے۔ عذر کیا تو ثابت ہو جائے گا کہ ریاکار ہے۔ سب نے بادشاہ کی بات کو درست مانا اور وزیراعظم کچھ لوگوں کے ہمراہ حاتم کے ہاں چلے گئے۔ شاہ روم کا یہ وفد رات کے وقت حاتم کے گھر داخل ہوا۔ اتفاق سے اس رات کو موسلادھار بارش ہورہی تھی اور بادل خوفناک انداز میں گرج برس رہے تھے۔ ایسے موسم میں بہت سے مہمانوں کے کھانے اور آرام کا انتظام کرنا بہت دشوار کام تھا۔ لیکن حاتم نے ذرا پریشانی محسوس نہ کی اور اس نے فوراً ایک گھوڑا ذبح کیا اور دسترخوان بچھوا کر لذیذ بھنا ہوا گوشت مہمانوں کو کھلایا۔ صبح ہوئی تو ادھر ادھر کی باتوں کے بعد وزیر نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا اور وہ گھوڑا اس سے مانگا جس کی دور تک شہرت تھی۔ وزیر کی یہ بات سن کر حاتم طائی نے افسوس کے انداز میں ہاتھ ملے اور پھر بولا آپ وہ گھوڑا ہی لینے آئے تھے تو آتے ہی بات کیوں نہ بتادی۔ اب تو وہ پیارا گھوڑا اس دنیا میں نہیں ہے۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ رات بہت طوفانی تھی۔ یہ کسی طرح بھی ممکن نہ تھا کہ میں چراگاہ سے کوئی جانور منگواتا اور اس سے آپ کی ضیافت کا سامان کرتا۔ گھر پر صرف وہی گھوڑا تھا اورمجبورہو کر میں نے اسے ذبح کر دیا کیونکہ یہ بات میں کسی طرح بھی گوارانہ کر سکتا تھا کہ میرے مہمان بھوکے سو ئیں۔ وزیر حاتم کی بات سن کر حیران رہ گیا۔ اس نے کہا کہ حاتم طائی واقعی تعریف کے قابل ہے۔