اشرف علی
جب سب سے قدیم تہذیب سمیری کوزوال ہوا تو اس کے بعد وادیٔ نیل میں بسنے والی قوم کو سمیریوں کے بعد دنیاکی دوسری عظیم قوم بننے کا شرف حاصل ہوا۔ بقول ڈاکٹر اسمتھ ولیم مصر کی تہذیب کا آغاز تقریباً پانچ ہزار سال قبل ہوچکا تھا۔ اس سرزمین پر، جس تحریری خط کی علامات ملی ہیں، وہ یونانی زبان میں ہیروغلفی (Hyeiroglaphie)کے نام سے مشہور ہوا۔ اس خط کی پرانی تحریر 3400ق م کے دور کی دستیاب ہوئی ہے۔ یہ خط پیپرس پر لکھے جانے سے پہلے پتھروں، لکڑی اور ہاتھی دانت کی تختیوں پر نقش کیا جاتا تھا لیکن زیادہ تر ادب جو دستیاب ہوا، وہ پیپرس کے رولوں پر تحریر شدہ ہے۔ مصری کتابوں کی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کو یہ جان کر حیرت ہوئی ہوگی کہ 1954ء میں مصر کے مضامات میں ہرکولینم کے مقام پر کھدائی کے دوران ایک ایسا ذخیرۂ کتب برامد ہوا ہے جو ایک کمرے میں راکھ کے ڈھیر میں دبا ہوا تھا۔ یہ تمام کتابیں، جو پیپرس رول کی شکل میں تھیں، جل چکی تھیں۔ ان کو جب احتیاط سے کھولا گیا تو ان کی تحریر پڑھی جاسکتی تھی۔ یہ تمام کتابیں ایک قسم کی تھیں اور ان کی تحریر کا موضوع فلسفہ تھا جس کا تعلق نصف صدی ق م سے ہے۔ یہ تصاویرپومیڈی تصاویر تھیں۔ ان میں سے ایک تصویر میں ایک شخص پیپرس رول کتاب کو ہاتھ میں تھامے ہوئے تھے جب کہ دوسری تصویر ایک لڑکی مومی الواح کا ایک جوڑا لیے ہوئے ہے۔ ہرکولینم کی دیواری تصویر میں دوسرا کتابی مواد بھی دکھایا گیا جn میں پیپرس کے رول، روشنائی کی دوات، سرکنڈہ قلم اور مومی تختیاں نمایاں ہیں۔ سکندرِ اعظم کی موت سے یونانی بادشاہت کمزور ہوچلی تھی اور مصر، یونانی علوم و فنون کے اعتبار سے دوسرایونان بنتا جارہا تھا۔ اس کی ترقی میں سب سے بڑا ہاتھ بطلیموس فرمانروا سوتراول کا تھا ‘ اس نے اسکندریہ میں ایک عظیم کتب خانے کی بنیاد رکھی تھی۔ اس کے لڑکے فلاڈنفس کی علم دوستی نے کتب خانہ اسکندریہ کو جلد ہی اس قابل بنا دیا تھا کہ ایتھنز کی علمی مرکزیت وہاں لوٹ آئی۔ تمام دنیا میں اس کی علم دوستی اور علم پروری کے چرچے ہونے لگے۔ اس طرح کتب خانہ اسکندریہ ، جو نینوا کے کتب خانے کی طرح، شاہی سرپرستی میں قائم ہوا، جلد ہی اہلِ دانش و علم پرور لوگوں کی نگاہوں کا علمی مرکز ہوگیا۔ نینوا کے شاہی کتب خانے میں کتابیں مٹی کی الواح پر تحریر شدہ تھیں جب کہ اسکندریہ کے کتب خانے کی کتب پیپرس رولوں پر لپٹی ہوئی تھیں۔ مگر دونوں عظیم کتاب خانوں کے قیام کا مقصد لوگوں کے اخلاق و کردار کی تعمیر کرنا تھا۔ ان دونوں کتب خانوں کے قیام کا درمیانی وقفہ چار سو سال بتایا جاتا ہے۔ ان کا علمی مواد ، درجہ بندی اور تنظیم سے آراستہ تھا۔ اسکندریہ کے کتب خانے کے ساتھ بطلیموس تاجدار سوتر اول نے علوم و فنون کا نہایت وسیع اور معیاری میوزیم بھی قائم کیا۔ مورٔخین نے اس علمی ادارے کو دنیا کی سب سے پہلی ہمہ گیر جامہ کا درجہ دیا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس میوزیم کے ایک حصے میں شعبۂ نشر واشاعت بھی قائم کیا گیا تھا جہاں دور دراز کے ملکوں سے مختلف علوم پر کتابوں کو منگوا کر ان کی نقول اور تراجم تیار کروا کے رکھے جاتے تھے۔ اس کتاب خانے کو یونانیوں نے ایتھنز کے مندروں اور عبادت گاہوں کی طرز پر تعمیر کروایا تھا۔ یہاں بھی علومِ فلسفہ اور ریاضی کی درس گاہیں موجود تھیں۔ ایسے علمی مرکز کے ہوتے ہوئے اسکندریہ میں یونانی کتب فروشی کا کاروبار چمک اُٹھا اور یونانی طلبا حصولِ علم کی خاطر اسکندریہ کی طرف دوڑ پڑے۔ مصری لوگ بہت پہلے بطور تحریری مواد پیپرس کی دریافت کرچکے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ پیپرس کی دریافت مصریوں کا نوعِ انسانی پر بہت بڑا احسان ہے، ورنہ معلوم نہیں ہمارے علمی ورثے کا کیا حشر ہوتا۔ مصرمیں سامانِ تحریر ارزاں تھا۔ اس لیے اسکندریہ میں تصنیف و تالیف کا کام عام ہوچکا تھا۔ اس علمی ذوق و شوق کی وجہ سے یہاں کُتب خانوں کا قیام ضروری ہوا اور یہی وجہ ہے کہ مصر میں عظیم اسکندریہ کا کتب خانہ قائم ہوا۔ ٭…٭…٭