حیدرآباد میں ایک مشاعرہ ہو رہا تھا، جس کی صدارت علامہ حیرت بدایونی فرما رہے تھے، مشاعرے میں جگن ناتھ آزاد،مخدوم محی الدین ،قاضی سلیم،بشر نواز،زبیر رضوی، انور معظم راشد آزر، وحید اختر، شاذ تمکنت، عزیز قیسی، سعید شہیدی ،طالب رزاقی، ابن احمد تاب ،منوہر لال شارب ،کنول پرشاد کنول اور تاج مہجور شرکت کر رہے تھے۔ شاذ اور راشد آزر بازو بازو بیٹھے ہوے تھے۔جگن ناتھ آزاد کو دعوت کلام دی گئی، وہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر مائیک کی سمت جا رہے تھے۔ شاذ تمکنت نے آہستہ سے راشد آزر سے کہا ’’یہ اس قدر پڑھے لکھے ، ماہر اقبالیات زبان و بیان کے ماہر ہیں، مگر اتنی بری شاعری کیوں کرتے ہیں‘‘ راشد صاحب نے پوچھا ’’پھر تم نے کبھی ان سے کہا؟ ‘‘ شاذ نے برجستہ جواب دیا ’’ہم نے کبھی تم سے کہا؟‘‘۔ ٭٭ ریل کے سفر میں سب سے اوپر والی برتھ پر مجاز، درمیان میں جوش ملیح آ بادی اور نچلی برتھ پر فراق گورکھپوری سفر کر رہے تھے۔ معاً جوش نے فراق سے پوچھا:’’ رگھو پتی اس وقت تمہاری عمر کیا ہوگی؟‘‘ ۔ فراق نے جواب دیا : ’’یہی کوئی دس برس‘‘۔ جوش خاموش ہو گئے، تو فراق نے جوش سے پوچھا: ’’شبیر حسن تمہاری عمر کیا ہوگی؟‘‘۔ جوش نے بر جستہ جواب دیا ’’یہی کوئی پانچ چھ سال‘‘۔ اس پر اوپر کی برتھ پر لیٹے ہوئے مجاز نے اپنا منہ چادر میں چھپاتے ہوئے کہا : ’’بزرگو ،اب مجھ سے عمر مت پوچھنا کیونکہ میں تو ابھی پیدا ہی نہیں ہوا‘‘۔ ٭٭ ایک مشاعرے میں بزرگ شاعر نوح ناروی اپنا کلام پڑھ رہے تھے۔ ان کے نقلی دانتوں کی بتیسی شائد ڈھیلی تھی اچانک شعر پڑھتے ہوئے نیچے گر گئی۔ نوح صاحب جیسے ہی بتیسی اٹھانے کے لئے جھکے مجاز نے مائک پر آ کر نہایت ادب سے کہا: ’’حضرات اب، آپ استاد سے ایک خالص زبان کا شعر سنئے‘‘۔ ٭٭ اُردو اکیڈمی دہلی کا ایک مشاعرہ تھا۔ صدارت اُستاد شاعر والی آسی کر رہے تھے۔ مشاعرے میں محمود ہاشمی،زبیر رضوی، مخمور سعیدی حضرت گلزار دہلوی ، راحت اندوری، منور رانا،منظر بھوپالی چند شاعرات اور دیگر شعرا شرکت کر رہے تھے۔ نظامت مخمور سعیدی کر رہے تھے۔ انھوں نے مشاعرہ کا آغاز کرتے ہوے شعراء سے درخواست کی کہ وہ اپنے پانچ منتخب شعر سنائیں۔سبھی شعرا نے اس کی پابندی کی اور صدارتی کلام کی باری آئی۔ حضرت والی آسی کو دعوت کلام دی گئی۔ آسی صاحب نے مائیک پکڑا اور کہا ’’کیا ہم پر بھی پانچ اشعار کی پابندی ہے؟‘‘ مخمور صاحب نے کہا ’’آپ نہ صرف جتنے شعر چاہیں سنائیں بلکہ جتنی غزلیں چاہیں سنائیں ، صدر پر کوئی پابندی نہیں۔‘‘ والی آسی صاحب نے کہا ’’بہتر ہے، میں اپنی پہلی غزل پیش کر رہا ہوں۔‘‘ محمود ہاشمی صاحب نے ہاتھ جوڑ کر کہا ’’والی بھائی جھوٹ تو نہ کہئے، ہم جب سے آپ کی تیرہ غزلیں تو سن چکے ہیں‘‘ اس پر ایک قہقہہ پڑا۔ ٭…٭…٭
Bookmarks