محترمی! تمہارے افسانوں کا مجموعہ ’’درانتی کے دانت‘‘ نظر سے گزرا۔ پڑھنے کے بعد فیصلہ نہ کر سکا کہ اس کا نام ہاتھی کے دانت ہونا چاہیے تھا یا درانتی کے دانت؟ ظالم کہنے کو تو تم نے افسانے لکھے ہیں لیکن دراصل مارکسیت پر اچھے خاصے مضامین لکھ ڈالے ہیں۔ میرا مطلب ہے کہ اگر تمہارے افسانوں سے کرداروں کے نام اور دو ایک خوبصورت تشبیہیں نکال دی جائیں تو انہیں آسانی سے کارل مارکس کے فلسفے کا ضمیمہ تصور کیا جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ بعض افسانوں سے نہ بھی نکالے جائیں جب بھی شاید کام چل جائے۔ اپنی کتاب کے دیباچے میں تم لکھتے ہو: ’’اب وقت آ گیا ہے کہ ہر ادیب کھلم کھلا اشتراکیت کا پراپیگنڈا شروع کر دے۔‘‘ اے دوست سچ سچ بتانا۔ تجھے یہ الہام کب اور کیسے ہوا؟ اگر تجھے اشتراکیت کا پراپیگنڈا کرناہی مقصود ہے تو اس غرض کے لیے افسانے لکھنا ہی کیوں لازم ٹھہرا؟ یہ مطلب تو افسانے لکھے بغیر بھی پورا ہو سکتا ہے۔ آخر بھلا کارل مارکس کہاں کا افسانہ نگار تھا۔ مجھے اشتراکیت سے چڑ نہیں۔ لیکن اس بات سے ضرور ہے کہ ہر افسانے کا مرکزی خیال ایک ہی ہو اور افسانہ معشوق کی ’’نہیں‘‘ کی طرح کوئی دوسری بات کہہ ہی نہ سکے۔ تمہارے مجموعے میں11 افسانے ہیںاور سچ تو یہ ہے کہ مشابہت کے اعتبار سے سب کے سب نہ صرف بھائی بلکہ ہمزاد معلوم ہوتے ہیں۔ تم کہتے ہو کہ جو ادیب اشتراکی نہیں‘ وہ ادیب ہی نہیں۔ اے دوست ادبا پر اتنا سخت فتویٰ تو کسی روسی ادیب نے بھی نہیں لگایا۔ کیا تم روسی ادبا سے بھی زیادہ ترقی پسند ہو اور پھر تمہارا ان ادبا کے متعلق کیا خیال ہے جو بد قسمتی سے کارل مارکس کے پیدا ہونے سے پہلے پیدا ہوئے۔ میری مراد ہومر، شیکسپیئر ، میر اور کالیداس سے ہے۔ سرخ بہت اچھا رنگ ہے۔ اے دوست! لیکن اس امر سے تو تجھے بھی انکار نہیں ہوگا کہ اس کے علاوہ اور بھی خوبصورت رنگ ہیں۔ جس قوس قزح کا ذکر تو بار بار اپنے افسانوں میں کرتا ہے، اس کا رنگ اگر صرف سرخ ہوتاتو شاید تو اس کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا۔ تو چاہے کچھ کہے۔ میں تو یہ کہوں گا کہ یہ تو نہایت مبارک فال ہے کہ قلم کے آس پاس کبھی کبھی اشتراکیت ضرور رہے۔ لیکن یہ اس سے بھی اچھا ہوگا کہ وہ اسے کبھی کبھی تنہا بھی چھوڑ دے۔ (تمہارا گستاخ دوست)
Bookmarks