سجل حویلیوں کی ، بام و در کی بات اور ہے
جہاں کے ہم مکیں ہیں، اُس نگر کی بات اور ہےمحال ہو گیا ہے، دھُند سے جسے نکالناچمن میں آرزو کے اُس شجر کی، بات اور ہےصدف سے چشمِ تر کے، دفعتاً ٹپک پڑا ہے جوگراں بہا نہیں ، پہ اُس گہر کی بات اور ہےہُوئی ہے روشنی سی، جگنوؤں کے اجتماع سےلگی نہیں جو ہاتھ، اُس سحر کی بات اور ہےکوئی کوئی ہے شہر بھر میں، تجھ سا ماجدِ حزیںہُوا جو تجھ پہ ختم ، اُس ہنر کی بات اور ہے



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote

Bookmarks